مشکوٰۃ المصابیح - قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر - حدیث نمبر 5378
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أحدثكم حديثا عن الدجال ماحدث به نبي قومه ؟ إنه أعور وإنه يجيء معه بمثل الجنة والنار فالتي يقول إنها الجنة هي النار وإني أنذركم كما أنذر به نوح قومه . متفق عليه . ( متفق عليه )
دجال کی جنت اور دوزخ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ آگاہ رہو کہ دجال کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی اور نبی ﷺ نے اپنی قوم کو نہیں بتائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہوگا اور وہ اپنے ساتھ جنت و دوزخ کی مانند دو چیزیں لائے گا پس وہ جس چیز کو جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہوگی لہٰذا میں تمہیں اس دجال سے ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈریا تھا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ دجال کے پاس چونکہ بڑی زبر دست طلسماتی طاقت ہوگی اس لئے وہ اپنے ساتھ ایک بہت بڑا باغ اور آگ کا پھندا لئے پھرے گا جس کو وہ اپنی جنت اور دوزخ سے تعبیر کرے گا! یا جنت سے مراد آسائش و راحت کے سامان یا اس کے الطاف و عنایات ہیں اور دوزخ سے مراد رنج و کلف کی چیزیں اور اس کی ایذا رسانیاں ہیں۔ حقیت میں وہ آگ ہوگی۔ کی وضاحت ایک شارح نے یہ کی ہے کہ کسی شخص کا دجال کی اس جنت میں داخل ہونا اور اس کو قبول کرنا درحقیت عذاب الٰہی میں گرفتار ہونا اور دوزخ میں جانے کا راستہ اختیار کرنا ہے اسی پر قیاس کر کے دوسرا جز یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ دجال جس چیز کو دوزخ کہے گا حقیقت میں وہ بہشت ہوگی، یعنی جو شخص اس کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کی وجہ سے وہ اس کو اپنی دوزخ میں ڈالے گا وہ شخص درحقیقت دجال کی تکذیب کرنے اور اس کے آگے جھکنے سے انکار کردینے کے سبب بہشت میں داخل ہوگا! ایک وضاحت تو یہ ہے، لیکن زیادہ قریبی مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجال جس چیز کو اپنی جنت اور جس چیز کو اپنی دوزخ بتائے گا اور ان میں جن لوگوں کو داخل کرے گا وہ دونوں کے لئے بالکل برعکس ثابت ہوں گی اور ان کا فعل الٹا ہوجائیگا یعنی جن لوگوں کو تکلیف واذیت میں مبتلا کرنے کے لئے اپنی دوزخ میں ڈالے گا وہ ان کے لئے رنج و تکلیف کے بجائے اطمینان و راحت کی جگہ بن جائے گی اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے ہے القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار (قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے) یعنی قبر کا ماحول اور اس کا فعل بندوں کے اعتبار سے مختلف ہوجاتا ہے، جس بندے سے اللہ خوش ہوتا ہے اس کے لئے اس کی قبر رنج وکلفت کی آلام گاہ ہوجاتی ہے اور اس کے قبیل سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراہیم ( اے آگ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈگ اور سلامتی کا سبب بن جا) نیز یہی حال اس مکدر دنیا کا ہے جس کو قید خانہ کہا گیا ہے لیکن یہی قید خانہ اپنی تمام تر سختیوں اور تنگیوں کے باوجود ان عارفین اور اہل اللہ کے لئے جنت کا روپ اختیار کرلیتا ہے جو مقام رضا پر فائز ہوتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر یہاں کی ہر تنگی و سختی کو صبر و عزیمت اور خوش دلی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔ کہ ان مردان حق آگاہ کے لئے دو جنتیں ہیں، ایک تو یہی دنیا ان کے لئے جنت بن جاتی ہے اور ایک جنت انہیں عقبی میں ملے گی اسی لئے عارفین کی نظر میں دنیا بالکل برعکس معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دنیا کی نعمت و راحت درحقیقت نقمت یعنی عذاب ہوتی ہے اور یہاں کی نقمت حقیقت میں نعمت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ حدیث کا اصل مقصد چونکہ لوگوں کو دجال کی فریب کاریوں سے ڈرانا ہے اس لئے اس موقع پر صرف پہلے جز، یعنی دجال کی جنت کی حقیقت کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا، اگرچہ بعض دوسری حدیثوں میں دوسرے جزء یعنی اس کی دوزخ کی حقیقت کو بھی صریح بیان فرمایا گیا ہے پس مفہوم کے اعتبار سے اس موقع پر پوری عبارت گویا یوں ہوگی کہ پس وہ جس چیز کو جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہوگی اور جس چیز کو دوزخ کہے گا حقیقت میں وہ جنت ہوگی۔ دجال کے سلسلے میں عمومی طور پر ہر نبی ﷺ کا ذکر کرنے کے بعد پھر آخر میں خاص طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر کرنا اس حقیقت کی بناء پر ہے کہ مشاہیر انبیاء میں انہیں کی ذات مقدم ہے۔
Top