مہدویت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی تردید
اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ وہ مہدی ہیں ان میں سے بعض لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے مہدی کے لغوی معنی ہدایت کرنے والا، مراد لیتے ہوئے اپنے کو مہدی کہا یا کہلوایا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی تردیدی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ اگر وہ واقعہ ہدایت وراستی کی روشنی پھیلانے والے تھے اور ان کے ذریعہ مخلوق اللہ دین وآخرت کی صحیح رہنمائی حاصل کرتی تھی تو لغوی طور پر ان کو مہدی کہا جاسکتا ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے محض دنیا والوں کو فریب میں مبتلا کرنے اور اپنی شخصیت کو غلط طور پر لوگوں کا مرجع ومقتدا بنانے کے لئے خود کو مہدی موعود کہا یا کہلوایا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ باکل جھوٹے اور مکار تھے، چناچہ ایسے لوگوں نے مکرو فریب کے جال پھیلا کر اور سادہ لو، مسلمانوں کو ورغلا کر اپنے تابعداروں کی جماعت تیار کی اور بعضوں نے تو اوباش اور بدقماش افراد تک کو خرید کر اپنے گرد جمع کیا اور ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ اپنے مہدی موعود ہونے کا پروپیگنڈہ کرایا بلکہ بعض شہروں اور ملکوں میں فتنہ و فساد پھیلا یا، لڑائی جھگڑا کرایا اور آخر کار ان کا انجام بہت برا ہوا کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں نے ان کی بھر پور مدافعت کی اور انہیں تہ تیغ کرکے ان شہروں اور ملکوں کے لوگوں کو ان کے فتنہ و فساد سے نجات دلائی! خود ہمارے ہندوستان میں ایسے ہی گمراہ لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوچکی ہے جو اپنے کو مہدویہ کہلاتی تھی اس جماعت کے لوگ بہت جاہل اور پست خیال تھے ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مہدی موعود ہمارے پیشوا کی صورت میں ظاہر ہوا پھر وفات پا گیا اور خراسان کے ایک شہر میں دفن کردیا گیا! ان کی گمراہیوں میں سے ایک بڑی گمراہی، ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو شخص ہمارے نظریہ و خیال کا عقیدہ نہ رکھے اور ہماری بات سے متفق نہ ہو وہ کافر ہے۔ اسی بنا پر اس زمانہ میں مکہ کے چاروں مسلک کے علماء نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا تھا کہ صاحب اقتدار مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان گمراہ لوگوں کو قتل کردیں اسی طرح شیعہ حضرات کا یہ اعتقاد اور قول بھی بالکل فاسد ہے کہ مہدی موعود دراصل محمد ابن حسن عسکری ہیں جن کا انتقال نہیں ہوا ہے بلکہ وہ نظروں سے پوشیدہ ہوگئے ہیں، وہ امام زماں ہیں اور اپنے وقت پر ظاہر ہو کر اپنی امامت اور حاکمیت کا اعلان کر دینگے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ قول بھی سرے سے غلط اور باطل ہے، نیز اس کی تردید میں علم کلام کی کتابیں دلائل سے بھری ہوئی ہیں، علاوہ ازیں کتاب عروہ الوثقی میں یہ وضاحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ حضرت محمد ابن حسن عسکری کا انتقال ہوگیا ہے۔ ٢١ اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے انسان کو سخت مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے والی ایک بلا و آفت کا ذکر کیا جو اس امت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی یہاں تک کہ کسی شخص کو کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ملے گی جہاں وہ اس آفت وبلا کی صورت میں رونما ہونے والے ظلم وستم سے پناہ حاصل کرسکے پھر جب ظلم وستم اور ناانصافی کا وہ دور اپنی حد کو پار کر جائے گا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد اور میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو کہ جو عدل و انصاف اور علم و دانائی میں یکتا ہوگا اور جو مہدی کے لقب سے ملقب ہوگا، امامت کے منصب سے سرفراز کر کے اس دنیا میں بھیجے گا، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہوئے تھی، اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے یعنی فرشتے اور انبیاء کرام کی روحیں اور تمام زمین کے رہنے والے بہی راضی و مطمئن ہوں گے خواہ وہ کسی جنس اور نوع سے تعلق رکھتے ہوں، یہاں تک کہ جنگل کے جانور اور پانی کی مچھلیاں بہی آسمان اپنے مینہ کے قطروں میں سے کچھ باقی رکھے بغیر کثرت سے پانی برسائے گا اور زمین اپنی روئیدگی میں سے کچھ باقی رکھے بغیر سب کچھ اگادے گی یہاں تک کہ زندہ لوگ مردوں کی آرزوئیں کرنے لگیں گے وہ شخص یعنی مہدی اس خوشحال و کامرانی کے ساتھ سات برس یا آٹھ برس یا نو برس زندہ رہے گا۔
تشریح
آسمان اپنے مینہ کے قطروں میں سے۔۔ الخ۔ کا حاصل یہ ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں خیر و برکت کا یہ حال ہوگا کہ بارش وقت اور ضرورت کے مطابق بھر پور طور سے ہوا کرے گی، زراعتی پیداوار اور زمین سے حاصل ہونے والی چیزیں نہایت فراونی کے ساتھ پیدا ہوں گی اور اسطرح ہر طرف خوشحالی اور چین و راحت کا دور دورہ ہوگا اور لوگ نہایت پر مسرت اور ارام کی زندگی گزاریں گے۔ زندہ لوگ مردوں کی آرزو کرنے لگیں گے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ اس قدر پر مسرت اور خوش حال زندگی گزرایں گے کہ مرے ہوئے لوگوں کے وجود اور حیات کی تمنا کرنے لگیں گے اور کہیں گے کہ کاش وہ لوگ ہمارے زمانہ میں ہوتے تو انہیں بھی اس پر مسرت اور خوشحال زندگی کے دن دیکھنا نصیب ہوتے! واضح رہے کہ بعض لوگوں نے لفظ احیاء کو الف کے زیر کے ساتھ یعنی مصدر پڑھا ہے جس کے معنی ہیں زندہ کرنا! اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ خود مردے یہ آرزو کرنے لگیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندگی بخش کر دنیا میں بھیج دے تاکہ وہ بھی مسرت و خوشحالی کا دور دیکھ لیں لیکن یہ بات اظہار مبالغہ کے لئے ایک ناممکن چیز کو ممکن فرض کرنے کے طور پر ہے بشرطیکہ احیاء یعنی الف کے زیر کے ساتھ والی روایت ثابت ہو، ورنہ اس بات کی ایک احتمال سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔ یا آٹھ یا نو برس کے الفاظ یا تو راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں کہ یہ روایت نقل کرتے وقت راوی کو صحیح طور پر یاد نہیں تھا کہ حضور ﷺ نے یہاں سات سال کا عدد ذکر فرمایا تھا یا آٹھ کا یا نو کا یا یہ الفاظ خود حضور ﷺ کے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو ارشاد فرماتے وقت تک آپ ﷺ کو بھی مبہم طور پر ہی معلوم تھا، جس کو آپ ﷺ نے ساتھ یا آٹھ یا نو برس کے ذریعہ بیان فرمایا لیکن پھر بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو تعیین کے ساتھ سات سال کی مدت بتائی گئی، چناچہ آپ ﷺ نے اس کے بعد احادیث میں صرف سات سال کا ذکر فرمایا ہے۔ مشکوۃ کے اصل نسخے میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے، البتہ بعد میں یہ عبارت شامل کی گئی ہے الحاکم فی مستدر کہ وقال صحیح یعنی اس روایت کو حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔