مشکوٰۃ المصابیح - حرم مدینہ کا بیان - حدیث نمبر 2809
روضہء اطہر کی زیارت کے احکام وآداب :
جو کوئی حج کرنے جائے اس کو چاہئے کہ اگر حج فرض ہو تو پہلے اپنے حج سے فارغ ہوجائے پھر روضہ اطہر کی زیارت کے لئے مدینہ جائے اور اگر حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ چاہے تو پہلے زیارت کرے اور اس کے بعد حج کرے چاہے پہلے حج کرلے بعد میں زیارت کرے بشرطیکہ حج کے لئے مکہ جانے والا راستہ مدینہ کی طرف سے نہ ہو،۔ جب زیارت کے لئے چلے تو یہ نیت کرے کہ میں آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک اور آپ ﷺ کی مسجد انور کی زیارت کے لئے سفر کرتا ہوں۔ راستہ میں جتنی مسجدیں ملیں سب میں نماز پڑھے، راستہ میں درود پڑھتا رہے، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اس شہر مقدس کی عظمت کو دل میں جاگزیں کرے، جب مدینہ منورہ بالکل سامنے آجائے تو بہ خیال ادب اور بہ مقتضائے شوق اپنی سواری سے اتر پڑے اور اگر ممکن ہو تو وہاں سے مسجد شریف تک پاپیادہ جائے۔ حدود شہر میں داخل ہونے سے پہلے اگر ممکن ہو تو غسل کرلے ورنہ وضو کر کے عمدہ اور خاص طور پر سفید کپڑے پہن لے اور خوشبو لگائے، شہر کے اندر پہنچ کر سب سے پہلے مسجد نبوی ﷺ میں جائے، مسجد نبوی میں داخلہ سے پہلے غسل کرلے تو بہتر ہے ورنہ وضو کرے اور خوشبو لگائے، مسجد نبوی پہنچ کر تحیۃ المسجد اور نماز شکر پڑھے، اس کے بعد اس تصور و یقین کے ساتھ بصد ادب و احترام قبر اقدس کی زیارت کی طرف متوجہ ہو کہ میں اس باعظمت درگارہ میں حاضر ہو رہا ہوں جس کے سامنے تمام دنیا کے پر جلال بادشاہوں کی بھی کوئی وقعت نہیں، پھر مرقد اطہر کے پاس آ کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی طرح داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر اس طرح کھڑا ہو کہ حضرت سید بشر ﷺ کی طرف منہ ہو اور قبلہ کی طرف پیٹھ اور اس بات کا یقین کرے کہ آنحضرت ﷺ میری حاضری سے واقف ہیں، میرے سلام کا جواب دیتے ہیں اور میری دعا پر آمین کہتے ہیں اور پھر انتہائی شوق و ذوق کے ساتھ معتدل آواز میں سلام و صلوٰۃ پیش کرے اور عرض و معروض کرے، جب اپنی عرض و نیاز سے فارغ ہوجائے تو اپنے اعزاء و احباب میں سے جس نے عرض سلام کی درخواست کی ہو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس کی طرف سے اس طرح سلام عرض کر دے کہ یا رسول اللہ! ﷺ فلاں بن فلاں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے آپ ﷺ اس کے لئے پروردگار سے شفاعت کریں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق ؓ کے سر مبارک کے سامنے کھڑا ہو اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے، اس کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کے سر مبارک کے سامنے پہلے کی طرح دست بستہ کھڑا ہو اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرے اور جو جو خواہش رکھتا ہو، آپ ﷺ کے طفیل میں حق تعالیٰ سے مانگے، وہاں سے ہٹ کر حضرت ابولبابہ ؓ کے ستون کے پاس جس قدر ممکن ہو نوافل پڑھے اور توبہ و استغفار کرے اس کے بعد آثار نبویہ کی زیارت کرے جو معلمین بتا دیتے ہیں اور جنت البقیع جائے وہاں صحابہ کرام اور اہل بیعت کے مزارات مقدسہ کی زیارت کرے پھر شہدائے احد خصوصاً سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ کی قبر کی زیارت کرے اور ان تمام مشاہد و مزارات پر فاتحہ پڑھے اور شنبہ کے دن یا جس دن ممکن ہو مسجد قبا کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز بہ نیت تحیۃ المسجد پڑھے۔ مدینہ منورہ اور روضہ اطہر کی زیارت کے آداب یہ ہیں کہ جتنے دنوں مدینہ منورہ میں قیام ہو سکے اس کو غنیمت سمجھے حتی الامکان اپنا اکثر وقت مسجد شریف نبوی ﷺ میں صرف کرے وہاں اعتکاف کرے اور ہر قسم کی عبادت یعنی نماز، روزہ تلاوت، درود اور صدقہ و خیرات سے اپنے اوقات کو آباد رکھے، جب تک مسجد میں رہے حجرہ شریف کی طرف نہایت شوق کی نگاہوں سے نظر کرتا رہے اور اگر مسجد سے باہر ہو تو بنظر احترام و تعظیم اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ قبہ شریف کو دیکھتا رہے کیونکہ روضہ حبیب کبریا ﷺ پر نظر ڈالنا استحباباً حکم نظر کرنے کعبہ شریف کا ہے نیز شہر سے باہر قبہ شریف پر نظر کرنے سے اہل شوق کو جو نورانیت اور سرور و ذوق حاصل ہوتا ہے اس کا ادراک اسی حالت پر موقوف ہے جس کو الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ ع ذوق ایں می نشناسی واللہ تانہ چشی۔ مسجد نبوی میں جس قدر بھی شب بیداری کی سعادت حاصل ہو سکے خواہ ایک ہی شب کے لئے ہو اسے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ شب قدر و منزلت کے اعتبار سے شب قدر سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اس لئے اس ایک رات کو اپنی تمام عمر کا ماحصل اور خلاصہ سمجھ کر عبادت میں کاٹ دے بہتر یہی ہے کہ اس رات میں اور کوئی عبادت نہ کرے بلکہ صرف درود شریف پڑھتا رہے اور اگر نیند آنے لگے تو حبیب کبریا ﷺ کی حضوری اور آپ ﷺ کے جمال باکمال کا سرور آمیز تصور کر کے نیند کو دفع کرے جب آنحضرت ﷺ کے جمال کمال کا تصور اس کے دل و دماغ کو کیف حضوری کا سرور بخشے گا تو کہاں نیند رہے گی اور کہاں غفلت قرار چیست صبوری کدام وخواب کجا۔ مسجد نبوی ﷺ میں جب تک رہے اپنے دل، اپنی زبان اور تمام اعضاء کو برے کلمات و خیالات اور ہر خلاف اولیٰ فعل سے محفوظ رکھے اور محبوب دو عالم ﷺ کی حضوری کے تصور کے سوا اور کسی طرف متوجہ نہ ہو اگر کوئی اس کی مشغولیت میں مخل ہو تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرے ہاں کسی سے نہایت ضروری گفتگو کرنی ہو تو مختصر کلام کر کے اسی جناب مقدس ﷺ کی طرف متوجہ ہوجائے، مسجد شریف کے آداب کے بطور خاص خیال رکھے تھوک وغیرہ وہاں نہ گرنے پائے مسجد میں آنے سے قبل روضہ اطہر اور منبر کے درمیان اپنا مصلے پہلے سے نہ بچھوائے رکھے بلکہ اس اگر اس مقدس مقام پر ادائیگی نماز کی فضیلت کے حصول کا شوق ہو تو سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرے اور وہاں بیٹھ جائے اس مقدس مسجد میں جو نزول قرآن و جبرائیل کی جگہ ہے قرآن پاک ختم کرنے میں کوتاہی نہ کرے کم از کم ایک قرآن مجید کا ختم اس مسجد پاک میں ضرور کرے اگر ممکن ہو تو ایسی کتابیں پڑھے یا سنے جس میں آنحضرت ﷺ کے مبارک حالات و خصائل اور فضائل ہوں تاکہ آپ ﷺ کی ملاقات اور عبادت کا شوق فزوں ہو۔ قبر شریف کے سامنے سے جتنی مرتبہ بھی گزرنا ہو وہاں تمام آداب زیارت کو ملحوظ رکھ کر کھڑا ہوجائے اور آپ ﷺ کی خدمت میں سلام و صلوٰ ۃ پیش کرے، مدینہ منورہ اور مسجد نبوی ﷺ کے رہنے والوں اور خدمت گاروں کی محبت و تعظیم کو ہمہ وقت ملحوظ رکھے چاہے ان میں کوئی بات خلاف شریعت و سنت ہی کیوں نہ دیکھے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی ہمسائیگی کا شرف ہی ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے جو کسی گناہ و بدعت کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا اور انہیں حسن خاتمہ و مغفرت کی سعادت سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ دیار مقدس سے وطن کو واپسی جب مدینہ منورہ میں قیام کی مدت ختم ہوجائے اور اس مقام مقدس سے جدا ہو کر وطن کو روانہ ہونے کا ارادہ ہوجائے تو مصلی نبوی یا اس کے قریب نماز پڑھ کر اور دعا مانگ کر مسجد نبوی ﷺ سے رخصت ہو بعد ازاں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر ؓ کی زیارت کرے اور اللہ تعالیٰ سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے اعزاء و احباب کے لئے کونین کی سعادتوں کے حصول کی دعا مانگے نیز دیار مقدس میں اپنی تمام عبادات کی قبولیت اور اپنے اہل و عیال کے پاس امن و سلامتی کے ساتھ پہنچنے کی درخواست کرے اور یہ دعا پڑھے (اللہم انا نسئلک فی سفرنا ہذا لبر والتقویٰ ومن العمل ما تحب وترضی اللہم لا تجعل ہذا آخر العہد بنبیک ومسجدہ وحرمہ ویسر لی العود الیہ والعکوف لدیہ وارزقنی العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ورددنا الی اھلنا سالمین غانمین آمنین۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مقبولیت دعا اور حصول مقصد کی علامت یہ ہے کہ اس وقت بےاختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں اور دل دیار محبوب کی جدائی کی حسرت و یاس سے معمور ہو بلکہ درحقیقت تمام اوقات دعا میں گریہ وزاری حصول رزق کا باعث اور امیدواری رحمت کی علامت ہے ایں دلم باغست وچشم ابروش ابر گرید باغ خندوشادوخوش!۔ اس وقت اگر خدانخواستہ کسی شخص پر حالت گریہ وزاری طاری نہ ہو تو وہ بہ تکلف اپنے اوپر یہ حالت طاری کرے اور ان باتوں کا تصور کرے جو ذوق اور گریہ و رقت کی حالت پیدا کریں کیونکہ اس وقت حالت گریہ ہی بہر صورت قبولیت کی علامت ہے اور پھر وہاں کی جدائی سے بہ چشم نم اور بہ حسرت و یاس رخصت ہو اور رخصت ہوتے وقت پچھلے پیروں نہ لوٹے کیونکہ یہ صرف خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وقت وداع جس قدر ہو سکے صدقہ و خیرات کرے اور ان تمام آداب کو ملحوظ رکھے جو سفر سے واپسی کے وقت کے سلسلہ میں منقول ہیں اور پھر جب اپنے شہر کے قریب پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر اھلہا وخیر ما فیہا واعوذبک من شرہا وشر اھلہا وشر ما فیہا اللہم اجعل لنا بہا قرار اور زقا حسنا)۔ اور جب شہر میں پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون لاالہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ واعز جندہ فلا شیء بعدہ)۔ اور چاہئے کہ اپنے شہر و مکان تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعزہ کو خبر کر دے کہ میں فلاں دن فلاں وقت پہنچ رہا ہوں بغیر اطلاع کے ایک دم نہ پہنچ جائے نیز اپنے شہر میں پہنچنے کا بہترین وقت چاشت ہے یا شام۔ رات کے وقت نہ پہنچے پھر جب اپنے مکان پہنچ جائے۔ تو مکان کے اندر جانے سے پہلے اگر وقت مکروہہ نہ ہو تو مسجد میں جا کردو رکعت نماز پڑھے دعا مانگے اور بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ جانے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ کہے الحمد للہ الذی بنعمتہ و جلالہ تتم الصالحات۔ الحمدللہ کہ آج مورخہ ١٩ ذی الحجہ ١٤٢٩ ھ مطابق 19 اکتوبر 2008 ء بروز اتوار بوقت ساڑھے سات بجے شب مظاہر حق جلد دوم کی کمپوزنگ اللہ رب العزت کی مدد سے اور توفیق سے مکمل ہوئی۔ حق تعالیٰ مجھ سیہ کار انسان کی اس خدمت کو قبول و مقبول فرمائے۔ آمین۔ صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ وا صحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔
Top