مشکوٰۃ المصابیح - حرم مدینہ کا بیان - حدیث نمبر 2806
وعن ابن عباس قال : قال عمر بن الخطاب : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو بوادي العقيق يقول : أتاني الليلة آت من ربي فقال : صل في هذا الوادي المبارك وقل : عمرة في حجة . وفي رواية : قل عمرة وحجة . رواه البخاري
وادی عقیق میں نماز کی فضیلت
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ میں نے وادی عقیق میں (جو مدینہ کا ایک جنگل ہے) رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج کی رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا یعنی فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور وہ عمرہ کہئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اور عمرہ و حج کہئے (یعنی اس وادی میں نماز پڑھنا حج وعمرہ کے برابر ہے۔ (بخاری )

تشریح
پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ عربی قواعد کے مطابق لفظ قول فعل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا حدیث کے آخری جملہ قل عمرۃ فی حجۃ کے معنی ہیں اور اس نماز کو وہ عمرہ شمار کیجئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ وادی عقیق میں ادا کی جانے والی نماز کی فضیلت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وادی عقیق میں جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کا ثواب اس عمرہ کے برابر ہے جو حج کے ساتھ کیا جاتا ہے، اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ وقل عمرۃ وحجۃ کا مطلب یہ ہے کہ وادی عقیق میں پڑھی جانے والی نماز عمرہ و حج کے برابر ہے۔ مدینہ منورہ کے کچھ اور فضائل علماء نے لکھا ہے کہ حکیم مطلق اللہ جل شانہ نے اس شہر پاک کی خاک پاک اور وہاں کے میوہ جات میں تاثیر شفا ودیعت فرمائی ہے۔ اکثر احادیث میں منقول ہے کہ مدینہ کے غبار میں ہر قسم کے مرض کی شفا ہے بعض دوسرے طرق سے منقول احادیث میں ہے کہ مدینہ کے غبار میں جذام اور برص کی شفا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنے بعض صحابہ ؓ کو حکم فرمایا تھا کہ وہ بخار کا علاج اس کی خاک پاک سے کریں۔ چناچہ نہ صرف مدینہ ہی میں اس حکم پر عمل ہوتا رہا ہے بلکہ اس خاک پاک کو بطور دوا لے جانے کے سلسلہ میں بھی کتنے ہی آثار منقول ہیں اور بعض علماء نے تو اس معالجہ کا تجربہ بھی کیا ہے، حضرت شیخ مجددالدین فیروز آبادی کا بیان ہے کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ میرا ایک خدمت گار مسلسل ایک سال سے بخار کے مرض میں مبتلا تھا میں نے مدینہ کی وہ تھوڑی سی خاک پاک پانی میں گھول کر اس خدمت گار کو پلا دی اور وہ اسی دن صحت یاب ہوگیا۔ حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ مدینہ کی خاک پاک سے معالجہ کا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے وہ اس طرح کہ جن دنوں میں مدینہ منورہ میں مقیم تھا میرے پاؤں میں ایک سخت مرض پیدا ہوگیا جس کے بارے میں تمام اطباء کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کا آخری درجہ موت ہے اور اب صحت دشوار ہے۔ میں نے اسی خاک پاک سے اپنا علاج کیا، تھوڑے ہی دنوں میں بہت آسانی سے صحت حاصل ہوگئی۔ اسی قسم کی خاصیتیں وہاں کی کھجور کے بارے میں بھی منقول ہیں چناچہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص سات عجوہ کھجوریں (عجوہ مدینہ کی کھجور کی ایک قسم ہے) نہار منہ کھالیا کرے تو کوئی زہر اور کوئی سحر اس پر اثر نہیں کرے گا۔ فضائل مدینہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی بطور خاص قابل لحاظ ہے کہ اس مقدس شہر کی عظمت و بزرگی ہی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس شہر کے رہنے والوں کی تعظیم و تکریم کی یہ وصیت کی تھی کہ میری امت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرے ہمسایوں یعنی اہل مدینہ کے احترام کو ہمیشہ پیش ملحوظ رکھیں، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں، ان سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اس پر مواخذہ نہ کریں اور اس وقت تک ان کی خطاؤں سے درگزر کریں جب تک کہ وہ کبائر سے اجتناب کریں (یعنی اگر وہ کبائر کے مرتکب ہوں تو پھر رعایت اور درگزر کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ اللہ اور بندوں کے حقوق کے سلسلے میں شریعت کا جو حکم ہو اسے جاری کرے) یاد رکھو، جو شخص ان کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا اور جو شخص اہل مدینہ کے احترام و حرمت کو ملحوظ نہیں رکھے گا اسے طینۃ الخبال کا سیال پلایا جائے گا (واضح رہے کہ طینۃ الخبال دوزخ کے ایک حوض کا نام ہے جس میں دوزخیوں کی پیپ اور لہو جمع ہوتا ہے) ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے دست دعا بلند کئے اور یوں گویا ہوئے خداوندا! جو شخص میرے اور میرے شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کو جلد ہی ہلاک کر دے نیز آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو ڈرایا اس نے گویا مجھے ڈرایا نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو اپنے ظلم کے خوف میں مبتلا کیا اسے (اللہ تعالیٰ خوف میں مبتلا کرے گا اور اس پر اللہ کی، فرشتروں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایسے شخص کا کوئی بھی عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوگا خواہ فرض ہو یا نفل۔ حج کے کچھ مسائل اور ادائیگی حج کا طریقہ اگرچہ احادیث کی تشریح میں حج کے اکثر مسائل بیان کئے جا چکے ہیں مگر اب کتاب الحج کے اختتام پر مناسب ہے کہ کچھ اور مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں اور حج کی ادائیگی کا طریقہ بھی بیان کردیا جائے۔ حج میں چار چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام۔ (٢) عرفہ کے دن وقوف عرفات (٣) طواف الزیارت (٤) ان فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف عرفات پر وقوف عرفات کو طواف الزیارت پر مقدم کرنا۔ واجبات حج یہ ہیں، وقوف مزدلفہ، صفا ومروہ کے درمیاں سعی، رمی جمار، آفاقی کے لئے طواف قدوم، حلق یا تقصیر، احرام میقات سے باندھنا، غروب آفتاب تک وقوف عرفات، طواف حجر اسود سے شروع کرنا (بعض علماء نے اسے سنت کہا ہے) طواف کی ابتداء دائیں طرف سے کرنا، طواف پیادہ پا کرنا بشرطیکہ کوئی عذر لاحق نہ ہو، طواف باطہارت کرنا، طواف میں ستر ڈھانکنا، سعی کی ابتداء صفا سے کرنا، سعی پا پیادہ کرنا بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو، قارن اور متمتع کو بکری یا اس کی مانند جانور ذبح کرنا، ہر سات شوط یعنی ایک طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، رمی حلق اور قربانی میں ترتیب کا لحاظ رکھنا بایں طور کہ پہلے رمی کی جائے پھر قربانی پھر حلق اور پھر طواف زیارت کی جائے، طواف الزیارۃ ایام نحر میں کرنا، طواف اس طرح کرنا کہ حطیم طواف کے اندر آجائے، سعی طواف کے بعد کرنا، حلق حرم اور ایام نھر میں کرنا، وقوف عرفہ کے بعد ممنوعات احرام مثلاً جماع وغیرہ سے اجتناب، نیز وہ چیزیں بھی واجبات حج میں شامل ہیں، جن کو ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے، ان چیزوں کے علاوہ اور سب حج کے مستحبات اور آداب میں سے ہیں۔ غنی کا حج فقیر کے حج سے افضل ہے، والدین کی فرمانبرداری سے حج فرض تو اولیٰ ہے لیکن حج نفل اولیٰ نہیں ہے۔ بلکہ والدین کی فرمانبرداری ہی حج نفل سے افضل ہے۔ سرائے بنانا حج نفل سے افضل ہے۔ البتہ صدقہ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعض تو صدقہ کو افضل کہتے ہیں۔ اور بعض نے حج نفل کو افضل کہا ہے، تاہم بزازیہ میں ہے کہ حج نفل کی فضیلت ہی کو ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور جسمانی مشقت بھی ہوتی ہے جب کہ صدقہ میں صرف مال خرچ ہوتا ہے جس حج میں وقوف عرفات جمعہ کے دن ہو وہ حج ستر حجوں پر فضیلت رکھتا ہے اور اس حج میں ہر شخص کی بلاواسطہ مغفرت ہوتی ہے، اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ ساقط ہوجاتے ہیں یا نہیں؟ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ساقط ہوجاتے ہیں جس طرح کہ جب کوئی حربی کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے سب گناہ ساقط ہوجاتے ہیں لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ حج کی وجہ سے حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جس طرح کہ جب کوئی ذمی کافر، اسلام قبول کرلیتا ہے تو اس کے ذمہ سے حقوق اللہ تو ساقط ہوجاتے ہیں لیکن حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ تمام علماء اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ صرف توبہ ہی سے ساقط ہوتے ہیں، محض حج کی وجہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے، نیز کوئی بھی عالم حج کی وجہ سے دین (قرض) کے ساقط ہونے کا بھی قائل نہیں ہے۔ خواہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہو جیسے نماز و زکوۃ، ہاں ادائیگی قرض یا ادائیگی نماز وغیرہ میں تاخیر کا گناہ ضرور ساقط ہوجاتا ہے لہٰذا جو علماء کبیرہ گناہ کے ساقط ہوجانے کے قائل ہیں ان کی مراد بھی یہی ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا مستحب ہے بشرطیکہ خود اس کو یا کسی اور کو اس سے تکلیف نہ پہنچے، خانہ کعبہ کا غلاف اور پردہ بنی شیبہ سے خریدنا جائز نہیں ہے ہاں امام سے یا اس کے نائب سے لینا جائز ہے، خانہ کعبہ کے غلاف و پردہ کو لباس میں استعمال کرنا جائز ہے اگرچہ جنبی (ناپاک) یا حائضہ ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے حرم میں پناہ لے لے تو اس کو بطور قصاص قتل کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ حرم میں رہے، ہاں اگر قاتل نے حرم ہی میں قتل کا ارتکاب کیا ہو تو اس کو بھی حرم میں مار ڈالنا جائز ہے لیکن خانہ کعبہ کے اندر قاتل کو اس صورت میں بھی قتل کرنا جائز نہیں ہے جب کہ اس نے خانہ کعبہ کے اندر ہی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔ آب زمزم سے استنجا کرنا تو مکروہ ہے لیکن نہانا مکروہ نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ سے افضل ہے لیکن مدینہ منورہ کی زمین کا وہ قطعہ پاک جس پر سرکار دو عالم ﷺ آرام فرما ہیں مطلقاً افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ آنحضرت ﷺ کے روضہ اطہر کی زیارت کرنا مستحب ہے بلکہ بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لئے واجب ہے جسے فراغت میسر ہو! حج فرض کی ادائیگی کی صورت میں حج روضہ اطہر کی زیارت سے پہلے کرنا چاہئے ہاں نفل کی صورت میں اختیار ہے کہ چاہے تو پہلے کیا جائے چاہے پہلے زیارت کی جائے بشرطیکہ مدینہ راستہ میں نہ پڑتا ہو۔ اگر مکہ کا راستہ مدینہ سے ہو کر گزرتا ہو تو پھر پہلے روضہ اطہر کی زیارت کرنا ضروری ہے، روضہ اطہر کی زیارت کے ساتھ مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کی نیت بھی کرنی چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی ہزار نمازوں سے بہتر ہے ٠ مسجد حرام کا استثناء اس لئے ہے کہ اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا ثواب دس لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) حج کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حج کی سعادت عظمی کی توفیق بخشے اور وہ حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ پہلے وہ اپنی نیت کو درست کرے کہ اس کے پیش نظر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ادائیگی فرض ہو، کوئی دنیاوی غرض یا نام و نمود کا کوئی ہلکا سا تصور بھی نہ ہو ورنہ سب محنت اکارت جائے گی، پھر اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر، اعزہ و احباب سے رخصت ہو کر، سب سے معافی تلافی کر کے اپنے وطن سے کم از کم ایسے وقت روانہ ہو کہ مکہ مکرمہ میں ساتویں ذی الحجہ سے پہلے پہنچ جائے اور ساتویں تاریخ کا خطبہ سن سکے، جب میقات پر پہنچے (ہندوستانیوں کی میقات یلملم ہے) تو احرام باندھے، اگر مفرد ہو تو صرف حج، کا قارن ہو تو حج وعمرہ دونوں کا اور متمتع وہ تو صرف عمرہ کا احرام باندھے، مستحب یہ ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے ہاتھ پاؤں کے ناخن کٹوائے، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرے، حجامت بنوائے، اگر سر منڈانے کی عادت ہو تو سر منڈائے ورنہ بال درست کرائے اور ان میں کنگھی کرے، اگر بیوی ہمراہ ہو تو صحبت کرے، پھر وضو کرے یا نہائے لیکن نہانا افضل ہے اس کے بعد احرام کا لباس پہنے یعنی ایک لنگی باندھے اور ایک چادر اس طرح اوڑھے کہ سر کھلا رہے، یہ دونوں کپڑے نئے ہوں تو افضل ہے ورنہ صاف دھلے ہوئے ہونے چاہئیں، اگر کسی کے پاس دو کپڑے میسر نہ ہوں تو ایک ایسا کپڑا لپیٹ لینا بھی جائز ہے جس سے ستر پوشی ہوجائے پھر خوشبو لگائے، اس کے بعد نیت کرے، اگر قران کا ارادہ ہو تو اس طرح کہے۔ دعا (اللہم انی ارید الحج والعمرۃ فیسر ہمالی وتقبلہما منی)۔ اگر تمتع کا ارادہ ہو تو یوں کہے۔ دعا (اللہم انی ارید العمرۃ فیسرہا لی وتقبلہا منی)۔ اور اگر افراد کا ارادہ رکھتا ہو تو اس طرح کہے دعا (اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی وت قبلہ منی۔ اگر نیت کے مذکورہ بالا الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں بلکہ دل ہی میں نیت کرلی جائے تو بھی جائز ہے، نیت کے بعد لبیک کہے حج یا عمرہ کی نیت کے ساتھ لبیک کہتے ہی محرم ہوجائے گا، لبیک کے الفاظ یہ ہیں۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ان الفاظ میں کمی نہ کی جائے ہاں زیادتی جائز ہے چناچہ یہ الفاظ بھی منقول ہیں جن کے اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل لبیک لبیک الہ الخلق لبیک۔ بعد ازاں اکثر اوقات آواز بلند لبیک کہتا رہے خصوصا نماز کے بعد خواہ فرض ہو خواہ نفل نماز، صبح کے وقت، باہم ملاقات کے، بلندی پر چڑھتے یا نشیب میں اترتے وقت، غرضیکہ یہ سفر حج چونکہ نماز کے حکم میں ہے کہ جس طرح نماز میں ہر حالت کی تبدیلی پر تکبیر کہی جاتی ہے اس طرح اس سفر میں ہر حالت کی تبدیلی کے وقت لبیک کہنی چاہئے! احرام باندھ لینے کے بعد ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو حالت احرام میں ممنوع ہیں مثلا سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، انگر کھا، پاجامہ، فرغل، جبہ، قبا، بارانی موزہ، دست تانہ اور ٹوپی وغیرہ نہ پہنے جائیں، جو کپڑے رنگ دار خوشبو جیسے زعفران وغیرہ میں رنگے ہوئے ہوں وہ بھی استعمال نہ کئے جائیں ہاں دھلنے کے بعد کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو استعمال کرنا جائز ہے، سر اور منہ کسی چیز سے نہ ڈھانکا جائے، جوئیں نہ ماری جائیں، بیوی سے نہ تو صحبت کی جائے اور نہ ان چیزوں کا ارتکاب کیا جائے جو جماع کا باعث بنتی ہیں مثلاً بوسہ لینا، شہوت کے ساتھ عورت کو ہاتھ لگانا یا اس کے سامنے فحش باتیں یا جماع کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ فسق و فجور سے پرہیز کیا جائے کسی کے ساتھ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے، صحرائی وحشی جانوروں کا شکار نہ کیا جائے حتی ٰ کہ کوئی محرم نہ تو شکار کی طرف اشارہ کرے اور نہ شکار میں کسی کی اعانت کرے، ہاں دریائی جانوروں مثلا مچھلی کا شکار درست ہے۔ خوشبو کا استعمال نہ کیا جائے، ناخن نہ کٹوائے جائیں، سر داڑھی بلکہ تمام بدن کے بال نہ کتروائے جائیں نہ منڈوائے جائیں اور نہ اکھاڑے جائیں، سر و داڑھی کے بالوں کو خطمی سے نہ دھویا جائے البتہ محرم نہا سکتا ہے، حمام میں داخل ہوسکتا ہے، گھر اور کجاوہ کے سایہ میں بیٹھ سکتا ہے، ہمیانی (یعنی روپیہ رکھنے والی تھیلی) کمر میں باندھ سکتا ہے اور اپنے دشمن سے دفاعی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ احرام کی حالت میں جن جانوروں کو مارنا جائز ہے اور جن کے مارنے کی وجہ سے بطور جزاء نہ دم لازم ہوتا ہے نہ صدقہ وہ یہ ہیں۔ کوا، چیل، سانپ، بچھو، چوہا، چیچڑی، کچھوا، بھیڑیا، گیدڑ، پتنگا، مکھی، چیونٹی، گرگٹ، بھڑ، مچھر، حملہ آور درندہ اور موذی جانور۔ جب مکہ مکرمہ کے قریب آجائے تو غسل کرے کہ یہ مستحب ہے پھر دن میں کسی وقت باب المعلیٰ سے مکہ میں داخل ہو اور اپنی قیام گاہ پر سامان وغیرہ رکھ کر سب سے پہلے مسجد حرام کی زیارت کرے، مستحب یہ ہے کہ مسجد حرام میں لبیک کہتا ہوا اور باب السلام سے داخل ہو اور اس وقت نہایت خشوع و خضوع کی حالت اپنے اوپر طاری کرے اور اس مقدس مقام کی عظمت و جلالت کا تصور دل میں رکھے اور کعبہ کے جمال دلربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چاہے اپنے پروردگار سے طلب کرے پھر تکبیر و تہلیل کرتا ہوا حمد و صلوٰۃ پڑھتا ہوا حجر اسود کے سامنے آئے اور اس کو بوسہ دے اور بوسہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کو اس طرح اٹھائے جس طرح تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں، اگر اژدھام کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے تو حجر اسود کو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی لکڑی سے حجر اسود کو چھو کر چومے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر دونوں ہتھیلیوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے ہتھیلیوں کو چوم لے، حجر اسود کے استلام کے بعد حجر اسود کے پاس ہی سے اپنی داہنی جانب سے طواف قدوم شروع کرے، طواف میں سات شوط (چکر) کرے اور ہر شوط کو حجر اسود ہی پر ختم کرتے اور ہر شوط ختم کرنے کے بعد مذکورہ بالا طریقے سے حجر اسود کا استلام اور تکبیر و تہلیل کرے طواف میں حطیم کو بھی شامل کرے، طواف میں اضطباع کرے اور پہلے تین شوطوں میں رمل کرے نیز ہر شوط میں رکن یمانی کا ابھی استلام کرے مگر اس کے استلام میں اس کو چومنا نہیں چاہئے طواف ختم کرنے کے بعد دو رکعت نماز طواف مقام ابراہیم کے قریب پڑھے، یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے، اگر اژدحام وغیرہ کی وجہ سے اس نماز کو مقام ابراہیم کے قریب پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر مسجد حرام میں جہاں بھی چاہے پڑھ لے، اس نماز کی پہلی رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورت قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ کی قرأت کرے اور دعا میں جو چاہے اللہ سے مانگے، اس کے بعد چاہ زمزم پر آئے اور زمزم کا پانی پیٹ بھر کر پئے پھر مقام ملتزم میں آئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے پھر صفا سے مروہ کی طرف اپنی چال کے ساتھ چلے مگر جب وادی بطن پہنچے، تو میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے اور پھر جب مروہ پر چڑھے تو وہی کچھ یعنی تکبیر و تہلیل وغیرہ کرے جو صفا پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صفا ومروہ کے درمیان سات شوط کرے، ہر شوط کی ابتداء صفا سے ہو اور انتہا مروہ پر اور ہر شوط میں میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعی سے پہلے طواف کرنا ضروری ہے اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کرلی تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ طواف کے بعد پھر دوبارہ سعی کرے۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ اس سعی، وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار کے لئے طہارت (پاکی) شرط نہیں ہے لیکن اولیٰ ضرور ہے جب کہ طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔ نیز طواف و سعی کے وقت ٹھہرا رہے اور اس کے دوران نفل طواف جس قدر ہو سکے کرتا رہے، مگر نفل طواف کے درمیان رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے، پھر ساتویں ذی الحجہ کو مسجد حرام میں خطبہ سنے، اس خطبہ میں جو ظہر کی نماز کے بعد ہوتا ہے امام حج کے احکام و مسائل بیان کرتا ہے، پھر اگر احرام کھول چکا ہو تو آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر طلوع آفتاب کے بعد منیٰ روانہ ہوجائے، اگر ظہر کی نماز پڑھ کر منیٰ میں پہنچے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، رات منیٰ میں گزارے اور عرفہ کے روز یعنی نویں تاریخ کو فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھ کر طلوع آفتاب کے بعد عرفات جائے اگر کوئی آٹھویں تاریخ کو منیٰ میں نہ جائے بلکہ نویں کو عرفات میں پہنچ جائے تو بھی جائز ہے مگر یہ خلاف سنت ہے۔ عرفات میں بطن عر نہ کے علاوہ جس جگہ چاہے اترے لیکن جبل عرفات کے نزدیک اترنا افضل ہے پھر اسی دن زوال آفتاب کے بعد غسل کرے (جو سنت ہے) اور عرفات میں وقوف کرے (جو فرض ہے اور جس کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں) امام جو خطبہ دے اسے سنے اور امام کے ساتھ بشرط احرام ظہر و عصر کی نماز ایک وقت میں پڑھے اور جبل رحمت کے پاس کھڑا ہو کر نہایت خشوع و خضوع اور تذلل و اخلاص کے ساتھ تکبیر و تہلیل کرے، تسبیح پڑھے، اللہ کی ثنا کرے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجے اور اپنے تمام اعزہ و احباب کے لئے استغفار کرے اور تمام مقاصد دینی و دنیوی کے لئے دعا مانگے، پھر غروب آفتاب کے بعد امام کے ہمراہ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوجائے اور راستہ میں استغفار، لبیک، حمد و صلوۃ اور اذکار میں مشغول رہے مزدلفہ پہنچ کر امام کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے اور رات میں وہیں رہے کیونکہ رات میں وہاں رہنا واجب ہے، نیز اس پوری رات میں نماز، تلاوت قرآن اور ذکر و دعا میں مشغول رہنا مستحب ہے، جب صبح ہوجائے تو (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھے اور وہاں وقوف کرے، مزدلفہ میں سوائے بطن محسر کے جہاں چاہے وقوف کرسکتا ہے، اس وقوف کی حالت میں نہایت الحاح وزاری کے ساتھ اپنے دینی و دنیاوی مقصد کے لئے خداوند والم سے دعا مانگے، آفتاب نکلنے سے کچھ پہلے وقوف ختم کرلیا جائے، پھر جب روشنی خوب پھیل جائے تو آفتاب سے پہلے منیٰ واپس پہنچ کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری مارتے ہی تلبیہ موقوف کر دے، اس کے بعد قربانی کرے پھر سر منڈوائے یا بال کتروائے، اس کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں، سوائے رفث کے، جائز ہوجائیں گی، پھر عید کی نماز منیٰ ہی میں پڑھ کر اسی دن مکہ آجائے اور طواف زیارت کرے، اس طواف کے بعد سعی نہ کرے ہاں اگر پہلے سعی نہ کرچکا ہو تو وہ پھر اس طواف کے بعد سعی کرے، اس کے بعد رفث بھی جائز ہوجائے گا طواف زیارت سے فارغ ہو کر پھر منیٰ واپس آجائے اور رات میں وہاں قیام کرے۔ گیارہویں تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کرے بایں طور کہ پہلے تو اس جمرہ پر سات کنکریاں مارے جو مسجد خیف کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ اولیٰ کہتے ہیں اس کے بعد اس جمرہ پر جو اس کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ وسطیٰ کہتے ہیں سات کنکریاں مارے اور پھر سوار ہو کر پا پیادہ ہی جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبری کہتا رہے، اسی طرح بارہویں تاریخ ہی کو منیٰ سے رخصت ہوگیا تو پھر اس پر تیرہویں تاریخ کو واجب نہیں ہوگی۔ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے لیکن تیرہویں تاریخ کو اگر طلوع فجر کے بعد اور زوال آفتاب سے پہلے بھی رمی کرے تو جائز ہے مگر مسنون زوال آفتاب کے بعد ہی ہے جب کہ گیارہویں اور بارہویں تاریخوں میں زوال آفتاب سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ آخری دن رمی سے فارغ ہو کر مکہ روانہ ہوجائے اور راستہ میں تھوڑی دیر کے لئے محصب میں اترے، پھر جب مکہ مکرمہ سے وطن کے لئے روانہ ہونے لگے طواف وداع کرے اس طواف میں بھی رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے طواف کے بعد دو رکعت پڑھ کر زمزم کا مبارک پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پیے اور ہر مرتبہ کعبہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر حسرت سے آہ سرد بھرے نیز اس مبارک پانی کو منہ، سر اور بدن پر ملے پھر خانہ کعبہ کی طرف آئے اگر ممکن ہو بیت اللہ کے اندر داخل ہو اگر اندر نہ جاسکے تو اس کی مقدس چوکھٹ کو بوسہ دے اور اپنا سینہ اور منہ ملتزم پر رکھ دے اور کعبہ مکرمہ کے پردوں کر پکڑ پکڑ کر دعا کرے اور روئے اور اس وقت بھی تکبیر و تہلیل، حمد و ثنا اور دعاء استغفار میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مقاصد کی تکمیل طلب کرے۔ اس کے بعد پچھلے پیروں یعنی کعبہ مکرمہ کی طرف پشت نہ کر کے مسجد حرام سے باہر نکل آئے حج تمام افعال ختم ہوگئے۔
Top