مشکوٰۃ المصابیح - حرم مدینہ کا بیان - حدیث نمبر 2787
وعن جابر بن عبد الله : أن أعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه و سلم فأصاب الأعرابي وعك بالمدينة فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا محمد أقلني بيعتي فأبى رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي فأبى ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي فأبى فخرج الأعرابي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنما المدينة كالكير تنفي خبثها وتنصع طيبها
مدینہ کی خصوصیت
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں رہنے کی آپ ﷺ سے بیعت کی، کچھ ہی دنوں کے بعد جب وہ مدینہ کے شدید بخار میں مبتلا ہوا اور اس صورت میں اس سے مدینہ رہنا گوارا نہ ہوا اور وہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ مگر آپ ﷺ نے انکار کردیا، وہ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کردیا، اس کے بعد وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کردیا، چناچہ وہ آپ ﷺ کی اجازت کے بغیر ہی مدینہ سے بھاگ گیا، جب آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو اپنے میل کو دور کردیتا ہے اور اپنے اچھے آدمی کو نکھار دیتا ہے یعنی برے آدمی کو نکال باہر کرتا ہے اور پاک باطن و مخلص آدمی کو پلید ذہن اور بدطینت آدمی سے الگ کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے اس کی بیعت کو فسخ کرنے سے اس لئے انکار فرمایا کہ جس طرح اسلام کی بیعت کو فسخ کردینا جائز نہیں تھا اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کی بیعت کو بھی فسخ کردینے کی اجازت نہیں تھی۔ علماء لکھتے ہیں کہ مدینہ کی اس خاصیت یعنی برے آدمیوں کو نکال دینے اور اچھے آدمیوں کو خالص کردینے کا تعلق یا تو آنحضرت ﷺ ہی کے زمانہ کے ساتھ خاص تھا یا پھر آخر زمانہ میں قیامت کے قریب اس مقدس شہر کی یہ خاصیت ظاہر ہوگی کہ جب دجال نمودار ہوگا تو مدینہ کو تین مرتبہ ہلایا اور جھنجھوڑا جائے گا چناچہ اس وقت مدینہ میں جتنے بھی برے لوگ ہوں گے (خواہ وہ کافر ہوں یا منافق) اس شہر سے نکل پڑیں گے اور دجال کے پاس پہنچ جائیں گے، نیز یہ احتمال بھی ہے کہ اس خاصیت کا تعلق ہر زمانہ کے ساتھ ہو۔
Top