مشکوٰۃ المصابیح - حرم مدینہ کا بیان - حدیث نمبر 2781
وعن عامر بن سعد : أن سعدا ركب إلى قصره بالعقيق فوجد عبدا يقطع شجرا أو يخبطه فسلبه فلما رجع سعد جاءه أهل العبد فكلموه أن يرد على غلامهم أو عليهم ما أخذ من غلامهم فقال : معاذ الله أن أرد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبى أن يرد عليهم . رواه مسلم
سعد بن وقاص کا ایک واقعہ
حضرت عامر بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد بن وقاص ؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں اپنی حویلی کی طرف جو مدینہ کے قریب مقام عقیق میں تھی، سوار ہو کر چلے تو راستہ میں انہوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا اس درخت کے پتے جھاڑ رہا تھا، حضرت سعد ؓ نے بطور سزا و تنبیہ اس غلام کے کپڑے چھین لئے، پھر جب وہ مدینہ واپس آئے تو غلام کے مالک ان کی خدمت میں آئے اور یہ گفتگو کی کہ انہوں نے جو چیز ان کے غلام سے لی ہے یعنی اس کے کپڑے اسے وہ غلام کو واپس کردیں یا ان مالکوں کو دے دیں۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ میں اس چیز کو کیسے واپس کرسکتا ہوں جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلوائی ہے۔ چناچہ سعد نے کپڑے واپس کرنے سے بالکل انکار کردیا۔ (مسلم)

تشریح
ان یرد علی غلامہم او علیہم، حرف او راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ ان کے مالکوں نے یا تو کہا تھا کہ غلام کے کپڑے غلام کو واپس کردیں یا اس کے بجائے یہ کہا تھا کہ جو کپڑے ہمارے غلام سے لئے ہیں وہ ہمیں دے دیں۔ حدیث کے اس جملہ جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلوائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ جو شخص کسی کو مدینہ میں شکار مارتے یا درخت کاٹتے دیکھے تو وہ اس کے کپڑے ضبط کرلے، لہٰذا کہا جائے گا کہ یا تو یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر یہ کہ آپ ﷺ کی طرف سے یہ اجازت زجر تنبیہ کے طور پر دی گئی تھی۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مدینہ میں شکار مارنے یا درخت کاٹنے کی وجہ سے بدلہ کفارہ واجب نہیں ہوتا بلکہ مدینہ میں یہ چیزیں بغیر بدلہ کے حرام ہیں، جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جس طرح مکہ میں ان چیزوں کے ارتکاب سے بدلہ واجب ہوتا ہے اسی طرح مدینہ میں بھی ان کی وجہ سے بدلہ میں واجب ہوتا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک مدینہ میں یہ چیزیں حرام نہیں ہیں البتہ مکروہ ہیں۔
Top