مشکوٰۃ المصابیح - حرم مکہ کی حرمت کا بیان - حدیث نمبر 2765
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل مكة يوم الفتح وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاء رجل وقال : إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة . فقال : اقتله
حرم مکہ میں قصاص اور حد جاری کرنے کا مسئلہ
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کے سر مبارک پر خود تھا، جب آپ ﷺ نے اس خود کو اتارا تو ایک شخص (یعنی فضل بن عبید ؓ نے عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ کو پکڑے ہوئے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
علامہ طیبی نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا خود پہن کر مکہ میں داخل ہونا حضرت امام شافعی کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص نسک حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن حنفیہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ جو شخص (بشرطیکہ وہ آفاقی ہو) مکہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو یا کسی اور غرض سے مکہ جا رہا ہو تو وہ میقات سے احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔ اس لئے شمنی کہتے ہیں کہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ کوئی شخص احرام باندھے بغیر میقات سے آگے نہ بڑھے۔ نیز یہ کہ احرام تو محص اس مقدس جگہ یعنی خانہ کعبہ کی تعظیم کے لئے باندھا جاتا ہے اس لئے چاہے کوئی حج یا عمرہ کے لئے مکہ جائے چاہے کسی اور غرض سے، اس کے لئے ضروری ہے کہ خانہ کعبہ کی تعظیم کے پیش نظر احرام کے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔ اب رہی یہ بات کہ پھر آنحضرت ﷺ احرام کے بغیر مکہ میں کیسے داخل ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فتح مکہ کے دن اس خاص ساعت میں بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا آپ ﷺ کے لئے حلال ہوگیا تھا، چناچہ اس کی تائید باب کی پہلی حدیث کے ان الفاظ ولم یحل لی الا ساعۃ من نہا (اور نہ میرے لئے حلال ہوا ہے علاوہ دن کی ایک ساعت کے) سے ہوئی ہے۔ ابن خطل کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ مسلمان تھا مگر پھر مرتد ہوگیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کردیا تھا۔ جو اس کا خدمت گار تھا، نیز اس نے ایک پیشہ ور گانے والی لڑکی پال رکھی تھی جو آنحضرت ﷺ، آپ کے صحابہ کرام اور اسلام کے احکام و شعائر کی ہجو کرتی تھی اس لئے آپ ﷺ نے اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ اس بات سے حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ حرم مکہ میں قصاص اور حدود سزائیں جاری کرنا جائز ہے، حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے دیا کہ وہ مرتد ہوگیا تھا، تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ ﷺ نے اس کو قصاص کے طور پر قتال کرایا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اس کا قتل اس خاص ساعت میں ہوا ہوگا جس میں آنحضرت ﷺ کے لئے زمین حرم مباح کردی گئی تھی۔
Top