مشکوٰۃ المصابیح - محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان - حدیث نمبر 2761
وعن عبد الرحمن بن يعمر الديلي قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : الحج عرفة من أدرك عرفة ليلة جمع قبل طلوع الفجر فقد أدرك الحج أيام منى ثلاثة أيام فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح هذا الباب خال عن الفصل الثالث
حج کارکن اعظم قیام عرفات ہے
حضرت عبدالرحمن بن یعمر دیلی کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حج عرفہ ہے (یعنی حج کا سب سے بڑا رکن ذی الحجہ کی نو یا دس تاریخ میں قیام عرفات ہے) جس نے مزدلفہ کی رات یعنی ذی الحجہ کی دسویں رات میں طلوع فجر سے پہلے وقوف عرفات پا لیا اس نے حج کو پا لیا۔ منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں تیرہویں تاریخ جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں، ان دنوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے اور رمی جمار کی جاتی ہے پس جو شخص جلدی کرے اور دو ہی دن کے بعد چلا آئے اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
اس نے حج کو پا لیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حج فوت نہیں ہوا اور وہ حج میں کسی خرابی اور فساد سے مامون رہا بشرطیکہ اس نے احرام کا وقت پورا ہونے سے پہلے بیوی سے ہم بستری یا کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کیا ہو جو احرام کی حالت میں ممنوع ہے اور یہ بات تو پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ جس شخص کا حج فوت ہوجائے یعنی وہ ذی الحجہ کی دسویں رات کو طلوع فجر تک ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کرسکے تو اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ عمرہ کے افعال یعنی طواف و سعی کے بعد احرام کھول دے، آئندہ سال کے حج تک مسلسل احرام باندھے رہنا اس کے لئے حرام ہے۔ جو شخص جلدی کرے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو ظہر کے بعد تینوں مناروں پر کنکریاں مار کر مکہ چلا آئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور تیرہویں رات میں قیام منیٰ اور تیرہویں تاریخ کو کنکریاں مارنا اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص تاخیر کرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو رمی جمرات کے بعد منیٰ ہی میں ٹھہرا رہے تآنکہ تیرہویں رات کو بھی رمی جمرات کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، گویا جواز کے اعتبار سے تو دونوں صورتیں برابر ہیں، البتہ کثرت عبادت کے پیش نظر تاخیر افضل ہے۔ منقول ہے کہ اہل جاہلیت میں دو فریق تھے، ایک فریق تو تعجیل کو گناہ کہتا تھا اور دوسرا فریق تاخیر کو، چناچہ یہ حکم نازل ہوا کہ تعجیل اور تاخیر دونوں برابر ہیں ان میں سے کسی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
Top