مشکوٰۃ المصابیح - محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان - حدیث نمبر 2760
وعن الحجاج بن عمرو الأنصاري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من كسر أو عرج فقد حل وعليه الحج من قابل . رواه الترمذي وأبو دواد والنسائي وابن ماجه والدارمي وزاد أبو داود في رواية أخرى : أو مرض . وقال الترمذي : هذا حديث حسن . وفي المصابيح : ضعيف
بیماری سے احصار واقعہ ہوجاتا ہے
حضرت حجاج بن عمرو انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کا پاؤں ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو وہ حلال ہوگیا۔ یعنی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے اور اپنے گھر واپس جائے لیکن آئندہ سال اس پر حج واجب ہوگا۔ ( ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) ابوداؤد کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا وہ بیمار ہوجائے۔ نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے جب کہ بغوی نے مصابیح میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔

تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو احرام باندھ لینے کے بعد دشمن کے خوف کے علاوہ بھی اور کوئی مانع پیش آجائے اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے، چناچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کے خوف کے علاوہ احصار کی اور صورتیں بھی ہیں مثلا بیماری وغیرہ جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ وفی المصابیح ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو بغوی نے جس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ سند ضعیف ہے لہٰذا بغوی کی سند ضعیف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ترمذی وغیرہ کی سند بھی ضعیف ہو اور اگر اس بارے میں تعارض تسلیم بھی کرلیا جائے تو ترمذی کے قول ہذا حدیث حسن (یہ حدیث حسن ہے) کو بغوی کے اس کہنے پر کہ یہ حدیث ضعیف ہے تو ترجیح حاصل ہوگی، پھر یہ کہ ایک نسخہ میں ترمذی کے قول میں لفظ حسن کے بعد لفظ صحیح بھی ہے نیز تور پشتی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہنا بالکل غلط ہے۔
Top