مشکوٰۃ المصابیح - محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان - حدیث نمبر 2757
وعن ابن عمر أنه قال : أليس حسبكم سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ إن حبس أحدكم عن الحج طاف بالبيت وبالصفا والمروة ثم حل من كل شيء حتى يحج عاما قابلا فيهدي أو يصوم إن لم يجد هديا . رواه البخاري
احصار اور حج فوت ہوجانے کا مسئلہ
حضرت ابن عمر ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کی یہ سنت یعنی آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی کافی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روکا جائے یعنی اس کو کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو حج کے رکن اعظم یعنی وقوف عرفات سے مانع ہو اور طواف و سعی سے مانع نہ ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کر کے ہر چیز سے حلال ہوجائے یعنی اس کے بعد اس کے لئے ہر وہ چیز حلال ہوجائے گی جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی تآنکہ وہ اگلے سال حج کرے اور ہدی ذبح کرے اور اگر وہ ہدی ذبح نہ کرسکتا ہو تو روزہ رکھے۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث میں احصار کا حکم بیان کیا گیا ہے! کچھ لوگوں نے اس بارے میں خلاف سنت طرز عمل اختیار کیا ہوگا، اس لئے حضرت ابن عمر ؓ نے انہیں متنبہ فرمایا اور کہا کہ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی سنت یہ ہے کہ اگر کسی کو حج میں حصر و حبس کی صورت پیش آجائے تو وہ عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور سال آئندہ اس حج کی قضا کرے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فائت الحج اور محصر کے حکم میں تھوڑا سا فرق ہے فائت الحج کے لئے تو یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو یعنی اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو تو طواف و سعی کر کے احرام کھول دے اس پر صرف سال آئندہ اس حج کی قضا واجب ہے، عمرہ اور ہدی اس کے لئے واجب نہیں ہے۔ محصر کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو اور اسے حرم پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں احصار کی کوئی صورت پیش آجائے تو وہ پہلے ہدی کا جانور حرم بھیجے جب وہ جانور حرم میں پہنچ کر ذبح ہوجائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور اس کے ساتھ ہی ایک عمرہ بھی کرے۔ لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس پر سال آئندہ صرف حج کرنا ہی واجب ہوگا عمرہ کرنا ضروری نہیں ہوگا، کیونکہ وہ صرف حج سے محصر ہوا ہے اور چونکہ ہدی کا جانور بھیج کر اس نے احرام کھولا تھا تو بس اس کے بدلہ اس کے ذمہ صرف حج ہی ہے، عمرہ نہیں ہے۔ اور اگر محصر قارن ہو (یعنی اس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہو) تو وہ بھی ہدی کا جانور حرم میں بھیجے اور وہاں اس جانور کے ذبح ہوجانے کے بعد احرام کھول دے، لیکن سال آئندہ اس پر اس حج کی قضا اور اس کے ساتھ دو عمرے واجب ہوں گے، اس پر ایک حج اور دو عمرے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک حج اور عمرہ تو اصلی حج وعمرہ کے بدلہ ادا کرنا ہوگا اور دوسرا عمرہ اس واسطے کہ اس سے حج اور عمرہ فوت ہوا اس لئے اس کی جزاء کے طور پر ایک عمرہ ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر احصار کی صورت حرم پہنچنے سے پہلے راستہ میں پیش نہ آئے بلکہ حرم پہنچ کر پیش آئے کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے وقوف عرفات سے تو عاجز رہے مگر طواف اور سعی کرسکتا ہو تو وہ طواف و سعی کرنے کے بعد یعنی عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور ہدی کا جانور ذبح کرے اور اگر ہدی کا جانور ذبح نہ کرسکتا ہو تو روزہ رکھے، مذکورہ حدیث میں یہی صورت بیان فرمائی گئی ہے۔ فائت الحج اگر قارن ہو تو پہلے وہ عمرہ کے لئے طواف و سعی کرے پھر حج فوت ہوجانے کے بدلہ میں طواف و سعی کرے اس کے بعد سر منڈائے یا بال کتروائے اور احرام کھول دے اس کے ذمہ سے قران کی قربانی ساقط ہوجائے گی۔ اور اگر وہ متمتع ہوگا تو اس کا تمتع باطل ہوجائے گا اور اس کے ذمہ سے تمتع کی قربانی بھی ساقط ہوجائے گی اگر وہ اس کی قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو تو اس کو جو چاہے کرے۔ جس طرح مفرد کا حج فوت ہوجانے کی صورت میں اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا ہی واجب ہوتی ہے اسی طرح قران اور تمتع کی صورت میں بھی اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا واجب ہوگی۔ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا۔ اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ تو سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے علاوہ یوم عرفہ، یوم عیدالاضحیٰ اور ایام تشریق کے، جب کہ حج کی ادائیگی تو اسی خاص زمانہ اور خاص وقت میں ہوسکتی ہے جو شریعت نے متعین کی ہے۔
Top