مشکوٰۃ المصابیح - محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان - حدیث نمبر 2753
احصار اور حج کے فوت ہوجانے کا بیان
احصار کے معنی لغت کے اعتبار سے تو روک لیا جانا ہیں اور اصطلاح فقہ میں احرام باندھ لینے کے بعد حج یا عمرہ سے روکا جانا احصار کہلاتا ہے۔ جس شخص پر ایسا واقعہ پیش آجائے یعنی جس شخص نے احرام باندھا اور پھر جس کام کے واسطے یعنی حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا تھا اس کے ادا کرنے سے وہ رکا گیا تو اس کو محصر کہتے ہیں۔ احصار کی صورتیں حنفی مسلک کے مطابق احصار کی کئی صورتین ہیں جو اس چیز کی ادائیگی سے کہ جس کا احرام باندھا ہے یعنی حج یا عمرہ، حیققۃً یا شرعا مانع ہوجاتی ہیں، ان صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ١۔ کسی دشمن کا خوف ہو! دشمن سے مراد عام ہے خواہ کوئی آدمی ہو یا درندہ جانور۔ مثلا یہ معلوم ہو کہ راستہ میں کوئی دشمن بیٹھا ہے جو حجاج کو ستاتا ہے یا لوٹتا ہے یا مارتا ہے آگے نہیں جانے دیتا، یا ایسے ہی کسی جگہ شیر وغیرہ کی موجودگی کا علم ہو۔ ٢۔ بیماری! احرام باندھنے کے بعد ایسا بیمار ہوجائے کہ اس کی وجہ سے آگے نہ جاسکتا ہو یا آگے جا تو سکتا ہے مگر مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو۔ ٣۔ عورت کا محرم نہ رہے! احرام باندھنے کے بعد عورت کا محرم یا اس کا خاوند مرجائے، یا کہیں چلا جائے یا آگے جانے سے انکار کر دے۔ ٤۔ خرچ کم ہوجائے! مثلاً احرام باندھنے کے بعد مال و اسباب چوری ہوجائے، یا پہلے ہی سے خرچ کم لے کر چلا ہو اور اب آگے کی ضروریات کے لئے روپیہ پیسہ نہ رہے۔ ٥۔ عورت کے لئے عدت! احرام باندھنے کے بعد عورت کا شوہر مرجائے یا طلاق دے دے جس کی وجہ سے وہ پابند عدت ہوجائے تو یہ احصار ہوجائے گا۔ ہاں اگر وہ عورت اس وقت مقیم ہے اور اس کے جاء قیام سے مکہ بقدر مسافت سفر نہیں ہے تو احصار نہیں سمجھا جائے گا۔ ٦۔ راستہ بھول جائے اور کوئی راہ بتانے والا نہ مل سکے ٧۔ عورت کو اس کا شوہر منع کر دے! بشرطیکہ اس نے حج کا احرام اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر باندھا ہو، حج فرض کے روکنے اور حج نفل میں اجازت دینے کے بعد روکنے کا اختیار شوہر کو نہیں ہے۔ ٨۔ لونڈی یا غلام کو اس کا مالک منع کر دے۔ احصار کی یہ تمام صورتیں حنفیہ کے مسلک کے مطابق ہیں، بقیہ تینوں ائمہ کے ہاں احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خود ہے، چناچہ ان حضرات کے نزدیک دیگر صورتوں میں احصار درست نہیں ہوتا بلکہ احرام کی حالت برقرار رہتی ہے۔ احصار کا حکم جس محرم کو احصار کی مندرجہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اگر مفرد ہو تو ایک ہدی کا جانور مثلاً ایک بکری اور اگر قارن ہو تو دو ہدی کے جانور مثلاً دو بکری کسی شخص کے ذریعہ حرم میں بھیج دے تاکہ وہ اس کی طرف سے وہاں ذبح ہو۔ یا قیمت بھیج دے کہ وہاں ہدی کا جانور خرید کر ذبح کردیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ذبح کا دن اور وقت بھی متعین کر دے یعنی جس شخص کے ذریعہ جانور حرم بھیج رہا ہو اس کو یہ تاکید کر کے کہ یہ جانور وہاں فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کیا جائے پھر وہ اس متعین دن اور وقت کے بعد احرام کھول دے، سر منڈانے یا بال کتروانے کی ضرورت نہیں! اور پھر آئندہ سال اس کی قضا کرے بایں طور کہ اگر اس نے احصار کی وجہ سے حج کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور ایک عمرہ کرے اور قران کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور دو عمرے کرے جب کہ عمرہ کا احرام اتارنے کی صورت میں صرف ایک عمرہ کیا جائے گا۔ اگر ہدی کا جانور بھیجنے کے بعد احصار جاتا رہے اور یہ ممکن ہو کہ اگر محصر روانہ ہوجائے تو قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے پہنچ جائے گا اور حج بھی مل جائے گا تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ فوراً روانہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس پر فوراً جانا واجب نہیں ہوگا۔ تاہم اگر وہ حج کو روانہ ہوجائے اور وہاں اس وقت پہنچے جب کہ ہدی کا جانور بھی ذبح ہوچکا ہو اور حج کا وقت بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے۔ حج فوت ہوجانے کا مطلب اور اس کا حکم حج فوت ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص حج کے لئے گیا، اس نے احرام بھی باندھ لیا تھا مگر کوئی ایسی بات پیش آگئی کہ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے بقر عید کی صبح تک کے عرصہ میں ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کرسکا، (یاد رہے کہ وقوف عرفات کا وقت عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بقر عید کی فجر طلوع ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے اس عرصہ میں وقوف عرفات فرض ہے۔ خواہ ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو تو اس صورت میں حج فوت ہوجائے گا اور جس شخص کا حج فوت ہوجاتا ہے اسے فائت الحج کہتے ہیں۔ جس شخص کا حج فوت ہوجائے اس کو چاہئے کہ عمرہ کر کے یعنی خانہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام کھول دے، اگر مفرد ہو تو ایک عمرہ کرے اور اگر قارن ہو دو عمرے کرے اور اس کے بعد سر منڈوا دے یا بال اتروا دے اور پھر سال آئندہ میں اس حج کی قضا کرے۔ حج فوت ہوجانے کے سلسلہ کا ایک پیچیدہ مسئلہ جس شخص کا حج فوت ہو رہا ہو اس کے بارے میں ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں بقر عید کی رات کے بالکل آخری حصہ میں اس حال میں پہنچے کہ اس نے ابھی تک عشاء کی نماز نہ پڑھی ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ اگر عرفات جاتا ہوں تو عشاء کی نماز جاتی رہے اور اگر عشاء کی نماز میں مشغول ہوتا ہوں تو وقوف عرفات ہاتھ نہیں لگے گا، اس صورت میں وہ کیا کرے؟ اس کے متعلق بعض، حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ اسے عشاء کی نماز میں مشغول ہونا چاہئے اگرچہ وقوف عرفات فوت ہوجائے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ عشاء کی نماز چھوڑ دے اور عرفات چلا جائے۔ چناچہ فقہ حنفی کی کتاب درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر عشاء کا وقت بھی تنگ ہو اور وقوف عرفات بھی نکلا جا رہا ہو تو اس صورت میں نماز چھوڑ کر عرفات چلے جانا چاہئے۔
Top