مشکوٰۃ المصابیح - سر منڈانے کا بیان - حدیث نمبر 2708
وعن ابن عباس : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم جاء إلى السقاية فاستسقى . فقال العباس : يا فضل اذهب إلى أمك فأت رسول الله صلى الله عليه و سلم بشراب من عندها فقال : اسقني فقال : يا رسول الله إنهم يجعلون أيديهم فيه قال : اسقني . فشرب منه ثم أتى زمزم وهم يسقون ويعملون فيها . فقال : اعملوا فإنكم على عمل صالح . ثم قال : لولا أن تغلبوا لنزلت حتى أضع الحبل على هذه . وأشار إلى عاتقه . رواه البخاري
آنحضرت ﷺ سبیل زمزم پر
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سبیل پر تشریف لائے اور زمزم کا پانی مانگا، حضرت عباس ؓ نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ فضل! اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور رسول کریم ﷺ کے لئے ان سے (زمزم کا وہ) پانی مانگ لاؤ جو ان کے پاس رکھا ہوا ہے اور ابھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم تو مجھے اسی سبیل سے پانی پلا دو۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ہے مجھے اسی میں سے پلا دو۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس پانی میں سے پیا اور پھر زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لائے جہاں لوگ (یعنی عبدالمطلب کے خاندان والے) لوگوں کو پانی پلا رہے تھے اور اس خدمت میں پوری طرح مصروف تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا اپنا کام کئے جاؤ، کیونکہ تم ایک نیک کام میں لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غلبہ پالیں گے تو میں اپنی اونٹنی پر سے اترتا جس پر آپ ﷺ سوار تھے تاکہ آپ ﷺ سب کے سامنے رہیں اور لوگ آپ ﷺ سے حج کے عملی احکام سیکھیں اور آپ ﷺ نے اپنے مونڈھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رسی اس پر رکھتا (یعنی اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری سنت کی اتباع میں پانی کھینچنے لگیں گے اور اس سعادت کے حصول کے لئے اتنا اژدحام کریں گے کہ وہ تم پر غالب آجائیں گے اور تمہیں پانی نہ کھینچنے دیں گے جس کی وجہ سے یہ مقدس خدمت تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے گی تو میں بھی اپنی اونٹنی سے اتر کر اس کنویں سے پانی کھینچتا۔ (بخاری)

تشریح
لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اس بات سے حضرت عباس ؓ کا مطلب یہ تھا کہ یہاں پانی پینے والوں کا اژدحام رہتا ہے اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ صاف ستھرے نہیں ہوتے اور وہ پانی پینے کے لئے اس حوض میں اپنے ہاتھ ڈالتے رہتے ہیں اس لئے میں آپ ﷺ کے لئے اس پانی میں سے منگایا ہے جو بالکل الگ رکھا ہوا ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے اسے منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تم تو مجھے اسی حوض میں سے پانی پلا دو چناچہ آپ ﷺ نے اسی حوض سے پانی پیا گویا یہ بات اس روایت کی مانند ہے جس میں منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ کا بچا ہوا پانی از راہ تبرک پینا پسند فرماتے تھے! نیز حضرت انس ؓ نے بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی) نقل کیا ہے کہ یہ چیز تواضع میں داخل ہے کہ انسان اپنے (کسی) بھائی کا جھوٹا پئے۔ لیکن لوگوں میں جو یہ حدیث مشہور ہے کہ سورت المؤمنین شفاء (مومنین کا جھوٹا شفا ہے) تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث غیر معروف ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مذکورہ بالا روایت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ زمزم کے کنوئیں سے پانی کھینچنے اور پینے کے لئے اونٹنی سے اترے نہیں، جب کہ ایک اور روایت میں جو حضرت عطاء ؓ سے منقول ہے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ جب طواف افاضہ کرچکے تو آپ ﷺ نے زمزم کے کنویں سے ڈول (میں پانی کھینچا اور اس کھینچنے میں آپ ﷺ کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تھا پھر آپ ﷺ نے اس میں سے پیا اور ڈول میں جو پانی بچ گیا اسے کنویں میں ڈال دیا۔ ان دونوں روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ بھیڑ کی وجہ سے اونٹنی سے نہ اترے ہوں گے پھر دوبارہ تشریف لائے تو بھیڑ دیکھ کر پانی کھینچا اور پیا چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ بالا روایت کا تعلق پہلی مرتبہ سے ہے اور حضرت عطاء ؓ کی روایت کا تعلق دوسری مرتبہ سے ہے۔
Top