مشکوٰۃ المصابیح - سر منڈانے کا بیان - حدیث نمبر 2707
وعن ابن عمر قال : استأذن العباس بن عبد المطلب رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يبيت بمكة ليالي منى من أجل سقايته فأذن له
منیٰ میں رات کو ٹھہرنا واجب ہے یا سنت؟
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے رسول کریم ﷺ سے اس بات کی درخواست کی کہ جن راتوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے ان میں انہیں سبیل زمزم کی خدمت کے لئے مکہ رہنے کی اجازت دے دی جائے چناچہ آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
طواف افاضہ کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے چناچہ اس زمانہ میں زمزم کے کنوئیں کے قریب ہی کئی حوض زمزم کے پانی سے بھرے رہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص اژدحام وغیرہ کی وجہ سے کنوئیں سے پانی نہ پی سکے تو وہ ان حوضوں میں سے پی لے، سبیل زمزم کی نگرانی کی سعادت آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کو حاصل تھی، اس طرح زمزم کا پانی پلانے کی اس عظیم السعادت خدمت کو وہ اپنے کئی مددگاروں کے ذریعہ انجام دیتے تھے! چناچہ جن راتوں میں حاجی منیٰ میں قیام کرتے ہیں انہیں راتوں میں حضرت عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں ان راتوں میں مکہ میں رہوں تاکہ سبیل زمزم کی جو مقدس خدمت میرے سپرد ہے اسے انجام دے سکوں آنحضرت ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ اب مسئلہ کی طرف آئیے، جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں ان میں منیٰ میں قیام اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ان راتوں میں منیٰ میں رہنا سنت ہے، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ رات کے قیام کے سلسلہ میں رات کے اکثر حصہ یعنی آدھی رات سے زیادہ کے قیام کا اعتبار ہے اور یہی حکم ان راتوں کا بھی ہے جن میں عبادت وغیرہ کے لئے شب بیداری مستحب ہے مثلاً لیلۃ القدر وغیرہ کہ ان راتوں کے اکثر حصہ کی شب بیداری کا اعتبار ہے۔ بہرکیف جن علماء کے نزدیک منیٰ میں رات کا قیام سنت ہے جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ اگر منیٰ میں رات میں قیام واجب ہوتا تو آنحضرت ﷺ حضرت عباس ؓ کو ان راتوں میں مکہ میں رہنے کی اجازت کیسے دیتے۔ بعض حنفی علماء کہتے ہیں حضرت عباس ؓ کی طرح جس شخص کے سپرد زمزم کا پانی پلانے کی خدمت ہو یا جس کو کوئی شدید عذر لاحق ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں وہ ان میں منیٰ کا قیام ترک کر دے، گویا اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ بلاعذر سنت کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور یہ کہ کسی عذر کی بناء پر سنت کو ترک کرنے میں اساء ۃ بھی نہیں ہے۔
Top