مشکوٰۃ المصابیح - سر منڈانے کا بیان - حدیث نمبر 2701
افعال حج میں تقدیم وتاخیر
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ قربانی کے دن منیٰ میں لوگ نبی کریم ﷺ سے (تقدیم و تاخیر کے سلسلسہ میں) مسائل دریافت کررہے تھے اور آپ ﷺ جواب میں یہی فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے چناچہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میں نے شام ہونے کے بعد کنکریں ماری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ (بخاری)

تشریح
دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے دن کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب غروب ہوجائے تو اس پر دم واجب ہوگا، چناچہ ان کے نزدیک حدیث میں شام کے بعد سے مراد بعد عصر ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ دسویں ذی الحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت کنکریاں مارنے کے لئے وقت جواز ہے مگر اساء ۃ کے ساتھ، یعنی اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد ہی کنکریاں مارے تو یہ جائز ہوجائے گا مگر یہ اچھا نہیں ہوگا۔ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک کا وقت، وقت مسنون ہے۔ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت، وقت جواز ہے مگر بغیر اساء ۃ کے یعنی اگر کوئی شخص زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کے کسی حصہ میں کنکریاں مارے تو یہ جائز بھی ہوگا اور اس کے بارے میں یہ بھی نہیں کہیں گے کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ البتہ وقت مسنون کی سعادت اسے حاصل نہیں ہوگی۔ اور غروب آفتاب کے بعد یعنی رات کا وقت، وقت جواز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔ مگر اتنی بات ذہن میں رہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص بلا عذر اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب بھی غروب ہوجائے اور پھر وہ رات میں کنکریاں مارے، چناچہ اگر چرواہے یا ان کے مانند وہ لوگ جو کسی عذر کی بناء پر رات ہی میں کنکریاں مار سکتے ہوں تو ان کے حق میں کراہت نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ کوئی حرج نہیں ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سائل کوئی چرواہا ہوگا جس نے شام کے بعد یعنی رات میں کنکریاں ماریں اس لئے آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ تم چونکہ دن میں کنکریاں مارنے سے معذور تھے اس لئے رات میں کنکریاں مارنے کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر رمی کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ صبح ہوجائے تو وہ رمی کرے گا مگر اس پر بطور جزاء دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوجائے گا، یہ حضرت امام اعظم کا قول ہے صاحبین کا اس سے اختلاف ہے۔ یوم نحر کے بعد کے دو دنوں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں مارنے کا وقت مسنون زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک مکروہ ہے، لہٰذا فجر طلوع ہوتے ہی حضرت امام اعظم کے نزدیک وقت ادا ختم ہوجاتا ہے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وقت ادا طلوع فجر کے بعد بھی باقی رہتا ہے، گویا رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد بالاتفاق باقی رہتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کی رمی حضرت امام اعظم کے ہاں وقت قضا میں ہوگی اور صاحبین کے ہاں وقت ادا ہی میں! اور چوتھے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوتے ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک رمی کا وقت ادا بھی فوت ہوجاتا ہے اور وقت قضا بھی۔
Top