مشکوٰۃ المصابیح - ہدی کا بیان - حدیث نمبر 2672
عن ابن عباس قال : صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم بذي الحليفة ثم دعا بناقته فأشعرها في صفحة سنامها الأيمن وسلت الدم عنها وقلدها نعلين ثم ركب راحلته فلما استوت به على البيداء أهل بالحج . رواه مسلم
اشعار اور تقلید کا مسئلہ
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (سفر حج میں) ذوالحلیفہ پہنچ کر ظہر کی نماز پڑھی اور پھر اپنی اونٹنی کو (جو قربانی کے لئے تھی) طلب فرمایا اور اس کی کوہان کے داہنے پہلو کو زخمی کیا اور اس کے خون کو پونچھ کر اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا اور اس کے بعد اپنی (سواری کی) اونٹنی پر (کہ جس کا نام قصواء تھا) سوار ہوئے اور جب مقام بیداء میں اونٹنی آپ ﷺ کو لے کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے لبیک کہی۔ (مسلم)

تشریح
پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ اشعار اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ حج میں ہدی کا جو جانور ساتھ لے جایا جاتا ہے اس کے پہلو کو زخم آلود کردیتے ہیں جسے اشعار کہا جاتا ہے نیز اس جانور کے گلے میں جوتے یا ہڈی وغیرہ کا ہار ڈال دیتے ہیں جسے تقلید کہا جاتا ہے اور ان دونوں کا مقصد اس امر کی علامت کردینا ہوتا ہے کہ یہ ہدی کا جانور ہے۔ آنحضرت ﷺ جب حج کے لئے چلے اور ذوالحلیفہ کو جو اہل مدینہ کا میقات ہے پہنچے تو نماز پڑھنے کے بعد اس اونٹنی کو طلب فرمایا جسے آپ ﷺ بطور ہدی اپنے ساتھ لے چلے تھے، پہلے آپ ﷺ نے اس کی کوہان کے داہنے پہلو میں نیزہ مارا جب اس سے خون بہنے لگا تو اسے پونچھ دیا اور پھر اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا اس طرح آپ ﷺ نے یہ علامت مقرر فرما دی کہ یہ ہدی کا جانور ہے تاکہ لوگ جب اس نشانی و علامت کے ذریعہ یہ جانیں کہ یہ ہدی ہے تو اس سے کوئی تعارض نہ کریں اور قزاق وغیرہ اسے غائب نہ کریں اور اگر یہ جانور راستہ بھٹک جائے تو لوگ اسے اس کی جگہ پہنچا دیں۔ ایام جاہلیت میں لوگوں کا یہ شیوہ تھا کہ جس جانور پر ایسی کوئی علامت نہ دیکھتے اسے ہڑپ کر جاتے تھے اور جس جانور پر یہ علامت ہوتی تھی اسے چھوڑ دیتے تھے، چناچہ شارع اسلام نے بھی اس طریقہ کو مذکورہ بالا مقصد کے تحت جائز رکھا۔ اب اس فقہی مسئلہ کی طرف آئیے، جمہور ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ اشعار یعنی جانور کو اس طرح زخمی کرنا سنت ہے لیکن جثم یعنی بکری، دنبہ اور بھیڑ میں اشعار کو ترک کردینا چاہئے کیونکہ یہ جانور بہت کمزور ہوتے ہیں ان جانوروں کے لئے صرف تقلید یعنی گلے میں ہار ڈال دینا کافی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک تقلید تو مستحب ہے لیکن اشعار مطلقاً مکروہ ہے خواہ بکری و چھترہ ہو یا اونٹ وغیرہ علماء حضرت امام اعظم کی اس بات کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ حضرت امام اعظم مطلق طور پر اشعار کی کراہت کے قائل نہیں تھے بلکہ انہوں نے صرف اپنے زمانے کے لئے اشعار کو مکروہ قرار دیا تھا کیونکہ اس وقت لوگ اس مقصد کے لئے ہدی کو بہت زیادہ زخمی کردیتے تھے جس سے زخم کے سرایت کر جانے کا خوف ہوتا تھا۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ کی مسجد میں پڑھی جب کہ باب صلوٰۃ السفر کی پہلی حدیث میں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز تو مدینہ ہی میں پڑھ لی تھی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں کے تضاد کو یوں دور کیا جائے کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز تو مدینہ ہی میں پڑھی تھی مگر حضرت ابن عباس ؓ نے چونکہ مدینہ میں ظہر کی نماز آپ ﷺ کے ہمراہ نہیں پڑھی ہوگی اس لئے جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو ذوالحلیفہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو یہ گمان کیا کہ آپ ﷺ یہاں ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں یہ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی۔ اھل بالحج ( آپ ﷺ نے حج کے لئے لبیک کہی) سے یہ نہ سمجھئے کہ آپ ﷺ نے واقعۃً صرف حج ہی کے لئے لبیک کہی بلکہ یہ مفہوم مراد لیجئے کہ آپ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہی کیونکہ صحیحین میں حضرت انس ؓ سے منقول اس روایت نے اس بات کو بالکل واضح کردیا ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو حج اور عمرہ کے لئے لبیک کہتے سنا ہے۔ چناچہ اس موقع پر راوی نے یا تو عمرہ کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ اصل چونکہ حج ہی ہے اس لئے صرف اسی کے ذکر پر اکتفاء کیا یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے جب دونوں کے لئے لبیک کہی تو راوی نے صرف حج کو سنا عمرہ کا ذکر نہیں سنا۔
Top