مشکوٰۃ المصابیح - مناروں پر کنکریاں پھینکنے کا بیان - حدیث نمبر 2670
عن نافع قال : إن ابن عمر كان يقف عند الجمرتين الأوليين وقوفا طويلا يكبر الله ويسبحه ويحمده ويدعو الله ولا يقف عند جمرة العقبة . رواه مالك
جمرات پر وقوف
حضرت نافع ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ پہلے دونوں مناروں کے نزدیک بہت دیر تک ٹھہرتے اور (وہاں اللہ کی تکبیر، اللہ کی تسبیح اور اللہ کی تحمید میں مشغول رہتے، نیز (ہاتھ اٹھا کر) اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے۔ (مالک)

تشریح
پہلے دونوں مناروں سے مراد جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ جب ان دونوں جمروں پر رمی کرچکے تو وہاں ٹھہر کر دعا وغیرہ میں مشغول رہتے، چناچہ ان جمرات پر وقوف کرنا اور وقوف کے دوران دعا وزاری اور تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہنا مسنون ہے۔ مدت وقوف کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ ان جمرات پر اتنی دیر تک ٹھہرنا چاہئے جتنی دیر میں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ویسے بعض اہل اللہ کے بارے میں تو یہ منقول ہے کہ وہ ان جمرات پر اتنی دیر تک کھڑے رہے ہیں کہ ان کے پاؤں ورم کر گئے تھے۔ اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کے لئے اس جمرہ پر نہ تو قربانی کے دن ٹھہرتے تھے اور نہ دوسرے ہی دنوں میں وقوف کرتے تھے تاہم اس سے دعا کا بالکل ترک کرنا لازم نہیں آتا۔ باب النحر میں وہ روایت آئے گی جس میں حضرت ابن عمر ؓ نے یہ وضاحت کی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
Top