عرفات میں جمع بین الصلوٰتین
حضرت ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے صاحبزادے حضرت سالم (رح) نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد؟ ) اس کا جواب سالم نے دیا کہ اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت ﷺ نے اسی طرح کیا تھا؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت ﷺ ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
جو شخص اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ حجاج بن یوسف کے نام سے بخوبی واقف ہوگا۔ یہ نام ظلم و بربریت کی داستانوں میں اپنی ایک بڑی ہی وحشت ناک داشتان کا حامل ہے۔ حجاج بن یوسف جس کے نام کا جز ہی ظالم بن چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں کو باندھ کر قتل کرایا تھا۔ عبدالملک بن مروان کی طرف سے اسی ظالم نے مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پر چڑھائی کی تھی اور ان جلیل القدر صحابی کو اس نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اسی سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چناچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔