مشکوٰۃ المصابیح - عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان - حدیث نمبر 2657
وعن عائشة قالت : أرسل النبي صلى الله عليه و سلم بأم سلمة ليلة النحر فرمت الجمرة قبل الفجر ثم مضت فأفاضت وكان ذلك اليوم اليوم الذي يكون رسول الله صلى الله عليه و سلم عندها . رواه أبو داود
امام شافعی کی مستدل حدیث اور اس کی تاویل
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ ) بھیج دیا تھا۔ چناچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ ( جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت ﷺ ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ ؓ کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہوگئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا؟ حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ ؓ کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔
Top