مشکوٰۃ المصابیح - عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان - حدیث نمبر 2654
وعن جابر قال : أفاض النبي صلى الله عليه و سلم من جمع وعليه السكينة وأمرهم بالسكينة وأوضع في وادي محسر وأمرهم أن يرموا بمثل حصى الخذف وقال : لعلي لا أراكم بعد عامي هذا . لم أجد هذا الحديث في الصحيحين إلا في جامع الترمذي مع تقديم وتأخير
آپ ﷺ کی طرف سے اپنے وصال کی اطلاع
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ ﷺ کی رفتار میں سکون و وقار تھا اور آپ ﷺ نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ ﷺ نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ ﷺ نے (صحابہ ؓ سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چناچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ ﷺ نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ ﷺ کا وصال ہوا۔ صاحب مشکوۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔
Top