مشکوٰۃ المصابیح - عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان - حدیث نمبر 2647
وعن ابن عباس أنه دفع مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه و سلم وراءه زجرا شديدا وضربا للإبل فأشار بسوطه إليهم وقال : يا أيها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع . رواه البخاري
عرفات سے آنحضرت ﷺ کی واپسی
حضرت ابن عباس ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منیٰ کی طرف) واپسی میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت ﷺ نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا) شور و شغب سنا تو آپ ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہوجائیں اور آپ ﷺ کی بات سنیں) اور فرمایا لوگوں! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری)

تشریح
دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہوگا۔
Top