طواف کے لئے پاکی واجب ہے
حضرت عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کیا اور حضرت عائشہ ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مکہ پہنچ کر جو سب سے پہلے کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا (یعنی عمرہ کا طواف کیا کیونکہ آپ ﷺ قارن یا متمتع تھے اور عمرہ نہیں ہوا، پھر آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے حج کیا تو آپ نے بھی بیت اللہ کے طواف سے افعال حج کی ابتداء کی اور عمرہ نہیں ہوا، پھر حضرت عمر ؓ نے اور حضرت عثمان ؓ نے بھی اسی طرح کیا۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
آپ ﷺ نے وضو کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ مکہ پہنچ کر طواف بیت اللہ سے پہلے آپ ﷺ نے دوبارہ وضو کیا، کیونکہ یہ بات پہلے ہی معلوم ہوچکی ہے کہ آنحضرت ﷺ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں غسل کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ غسل میں وضو بھی شامل ہوتا تھا۔ طواف کے صحیح ہونے کے لئے طہارت یعنی پاکی جمہور علماء کے نزدیک تو شرط ہے لیکن حنفیہ کے ہاں شرط نہیں ہے البتہ واجب ہے۔ گزشتہ احادیث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ نے مکہ پہنچ کر عمرہ کیا، اس کے بعد جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے وہ تو احرام باندھے رہے اور جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ نہ لائے تھے انہوں نے احرام کھول دیا۔ لہٰذا اور عمرہ نہ ہوا کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ یعنی موقوف کر کے عمرہ نہیں کیا اور احرام نہیں کھولا بلکہ آپ ﷺ عمرہ کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے کیونکہ قارن تھے اور پھر آخر میں قربانی کے دن آپ ﷺ نے احرام کھولا۔ لہٰذا راوی نے یہ بات اس لئے کہی تاکہ ان لوگوں کی تردید ہوجائے جو یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کر کے عمرہ کیا۔ یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ ان سب نے حج کے بعد الگ سے اور عمرہ نہیں کیا بلکہ اسی عمرہ پر اکتفاء کیا جو حج کے ساتھ شامل تھا۔