مشکوٰۃ المصابیح - حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان - حدیث نمبر 2601
عن عطاء قال : سمعت جابر بن عبد الله في ناس معي قال : أهللنا أصحاب محمد بالحج خالصا وحده قال عطاء : قال جابر : فقدم النبي صلى الله عليه و سلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة فأمرنا أن نحل قال عطاء : قال : حلوا وأصيبوا النساء . قال عطاء : ولم يعزم عليهم ولكن أحلهن لهم فقلنا لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس أمرنا أن نفضي إلى نسائنا فنأتي عرفة تقطر مذاكيرنا المني . قال : قد علمتم أني أتقاكم لله وأصدقكم وأبركم ولولا هديي لحللت كما تحلون ولو استقبلت من أمري ما استدبرت لم اسق الهدي فحلوا فحللنا وسمعنا وأطعنا قال عطاء : قال جابر : فقدم علي من سعايته فقال : بم أهللت ؟ قال بما أهل به النبي صلى الله عليه و سلم فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : فأهد وامكث حراما قال : وأهدى له علي هديا فقال سراقة بن مالك بن جعشم : يا رسول الله ألعامنا هذا أم لابد ؟ قال : لأبد . رواه مسلم
تبدیل احرام کے حکم پر صحابہ کا تردد وتامل
حضرت عطاء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کتنے ہی آدمیوں کے ساتھ کہ جو میرے ساتھ شریک مجلس تھے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم (صحابہ ؓ نے) بغیر عمرہ کی شمولیت کے) خالص حج کا احرام باندھا۔ عطاء ؓ کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا۔ پھر جب رسول کریم ﷺ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو (مکہ) میں پہنچے تو ہمیں حکم دیا کہ ہم احرام کھول دیں۔ حضرت عطاء ؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ احرام کھول دو۔ اور عورتوں کے پاس جاؤ (یعنی ان سے مقاربت بھی کرو) نیز عطاء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کی مقاربت کو واجب نہیں کیا تھا بلکہ آپ ﷺ نے صرف عورتوں کو ان کے لئے حلال کردیا تھا (یعنی احرام کھول دینے کا حکم تو وجوب کے طور پر تھا البہ صحبت و مجامعت کا حکم صرف اباحت و جواز کی صورت میں تھا) حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کا یہ حکم سن کر تعجب کے ساتھ کہنے لگے کہ جب کہ ہمارے اور عرفہ کے دن کے درمیان صرف پانچ راتیں باقی رہ گئی ہیں آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ حکم دے دیا کہ ہم اپنی عورتوں سے مجامعت کریں (یہ تو بڑی عجیب بات ہوگی کہ) ہم میدان عرفات میں اس طرح جائیں کہ ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپکتی ہو (یعنی رات کو ہم جماع کریں اور صبح کو عرفات میں پہنچ جائیں، اس بات کو ایام جاہلیت میں بہت برا سمجھا جاتا تھا کہ عورتوں سے مجامعت اور حج میں اتنا قرب ہوجائے بلکہ اس چیز کو حج میں نقصان کا باعث جانتے تھے) عطاء ؓ کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ان کا ہاتھ کا اشارہ اور اپنے ہاتھ کو ہلانا گویا اب بھی میری نظروں میں پھر رہا ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (کو جب ہمارے اس تردد و تامل کا علم ہوا تو آپ ﷺ ہمارے درمیان (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری بہ نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ تم سے زیادہ سچا اور تم میں سب سے زیادہ نیکو کار ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور ہوتا تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا جس طرح تم احرام کھولو گے اور اگر مجھے میری یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا (یعنی اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ احرام کھولنا تم پر شاق گزرے گا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی احرام کھول دیتا) تم (بلا تامل) احرام کھول دو۔ چناچہ ہم نے احرام کھول دیا اور آپ ﷺ کے ارشاد کو سنا اور اطاعت کی۔ عطاء کا بیان ہے کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ اپنے کام پر آئے (یعنی وہ یمن قاضی ہو کر گئے تھے جب وہاں سے آئے) تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ جس چیز کا احرام نبی کریم ﷺ نے باندھا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ (نحر کے دن) قربانی کا جانور ذبح کرو (کہ یہ قارن پر واجب ہے) اور حالت احرام کو برقرار رکھو (یعنی میری طرح اب تم بھی احرام باندھے رکھو) چناچہ حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے لئے یا خود اپنے لئے قربانی کا جانور لے کر آئے سراقہ بن مالک بن جعشم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ (یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کا جواز) صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔ (مسلم)

تشریح
ہم نے خالص حج کا احرام باندھا حضرت جابر ؓ نے یہ بات اپنے خیال و گمان کے مطابق کہی ورنہ تو جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے حضرت عائشہ کی روایت سے یہ معلوم ہی ہوچکا ہے کہ بعض صحابہ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض نے صرف حج کا اور بعض نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا۔ حضرت جابر ؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر عضو مخصوص سے قطرات ٹپکنے کی طرف اشارہ کیا۔ یا یہ کہ انہوں نے عضو مخصوص کی حرکت کو ہاتھ کی حرکت سے تشبیہ دی۔ بہرکیف یہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ بات کرتے ہوئے اعضاء کے اشاروں سے وضاحت کرتے تھے تاکہ مفہوم اچھی طرح واضح اور ذہن نشین ہوجائے۔
Top