مشکوٰۃ المصابیح - احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان - حدیث نمبر 2583
وعنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أدخل رجله في الغرز واستوت به ناقته قائمة أهل من عند مسجد ذي الحليفة
تلبیہ کب کیا جائے
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب اپنے پاؤں رکاب میں ڈالے اور اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب تلبیہ کیا (یعنی بآواز بلند لبیک کہی) (بخاری ومسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رخت سفر باندھا اور ظہر کی نماز مدینہ میں پڑھ کر روانہ ہوئے۔ عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی جو اہل مدینہ کے لئے میقات ہے رات وہیں گزاری اور پھر صبح کو آپ ﷺ نے احرام باندھا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اور اونٹ کے کھڑے ہوجانے کے بعد لبیک کہی جب ایک دوسری روایت میں یہ منقول ہے کہ احرام کے لئے بہ نیت نفل دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد لبیک کہی نیز ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ نے بیداء پہنچ کر جو ایک بلند جگہ کا نام ہے لبیک کہی اس طرح لبیک کہنے کے وقت کے سلسلہ میں تین طرح کی روایتیں منقول ہیں۔ چناچہ حضرت امام شافعی نے تو پہلی روایت پر کہ جو یہاں نقل کی گئی ہے عمل کرتے ہوئے کہا کہ اونٹ پر (یا جو بھی سواری ہو اس پر) بیٹھ کر لبیک کہی جائے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے دوسری روایت کو اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ان تینوں ائمہ کے ہاں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھنے کے بعد احرام کی نیت کی جائے اور پھر وہیں مصلیٰ پر بیٹھے ہی ہوئے لبیک کہے تو یہ جائز ہے لیکن نماز کے بعد ہی لبیک کہنا افضل ہے۔ اب ان تینوں روایتوں کے تضاد کو اس تطبیق کے ساتھ دور کیجئے کہ آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھ کر مصلےٰ پر بیٹھے ہوئے لبیک کہی پھر جب اونٹنی پر بیٹھے تو اس وقت بھی لبیک کہی اور اس کے بعد جب مقام بیداء پر پہنچے تو وہاں بھی لبیک کہی چناچہ علماء نے اسی لئے لکھا ہے کہ حالت وقت اور جگہ کے تغیرات کے وقت لبیک کی تکرار مستحب ہے۔ بہر کیف آپ ﷺ نے اس طرح تین مرتبہ لبیک کہی اور جس راوی نے جہاں لبیک کہتے سنا وہ یہ سمجھا کہ آپ ﷺ نے یہیں سے لبیک کہنی شروع کی ہے اس لئے ہر ایک راوی نے اپنے سننے کے مطابق ذکر کردیا۔ اس تطبیق و توجیہ کی بنیاد حضرت ابن عباس ؓ کی وہ روایت ہے جسے شیخ عبدالحق نے اشعۃ اللمعات میں شرح کتاب خرقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
Top