مشکوٰۃ المصابیح - احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان - حدیث نمبر 2582
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يهل ملبدا يقول : لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك . لا يزيد على هؤلاء الكلمات
تلبید وتلبیہ
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو تلبیہ اس طرح بآواز بلند کہتے سنا اور اس وقت آپ تلبید کئے ہوئے تھے۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ یعنی حاضر ہوں میں تیری خدمت میں اے اللہ! حاضر ہوں تیری خدمت میں، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میں تیری خدمت میں بیشک تمام تعریف اور ساری نعمت تیرے ہی لئے ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ آپ ﷺ ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
تلبید کرنا یہ کہ محرم (احرام باندھنے والا) اپنے سر کے بالوں میں گوند یا خطمی یا مہندی یا اور کوئی چیز لگا لیتا ہے تاکہ بال آپس میں یکجا رہیں اور چپک جائیں ان میں گرد و غبار نہ بیٹھے اور جوؤں سے محفوظ رہیں۔ تلبیہ یعنی لبیک کہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احرام کے صحیح ہونے کے لئے تلبیہ شرط ہے، حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ تلبیہ واجب نہیں ہے لیکن تلبیہ ترک کرنے کی وجہ سے دم (جانور ذبح کرنا) لازم آتا ہے اور حضرت امام شافعی کے ہاں تلبیہ سنت ہے اس کو ترک کرنے کی صورت میں دم لازم نہیں ہوتا۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تلبیہ میں اکثر اتنے ہی الفاظ کہتے تھے کیونکہ اور روایتوں میں تلبیہ کے الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ بھی منقول ہیں چناچہ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ تلبیہ کے جو الفاظ یہاں حدیث میں نقل کئے گئے ہیں، ان میں کمی کرنا تو مکروہ ہے زیادتی مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ حدیث سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ تلبیہ بآواز بلند ہونا چاہئے چناچہ تمام علماء کے نزدیک بلند آواز سے لبیک کہنا مستحب ہے۔
Top