مشکوٰۃ المصابیح - افعال حج کا بیان - حدیث نمبر 2575
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه ومره أن يستغفر لك قبل أن يدخل بيته فإنه مغفور له . رواه أحمد
حج کر کے واپس آنے والے سے سلام ومصافحہ کرو
حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم حاجی سے ملاقات کرو تو اس کو سلام کرو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے اپنے لئے بخشش کی دعا کرنے کو کہو اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اور یہ اس لئے کہ اس کی بخشش کی جا چکی ہے۔ (احمد)

تشریح
جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے حاجی مستجاب الدعوات ہوجاتے ہیں جس وقت کہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور گھر واپس آنے کے چالیس روز بعد تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ چناچہ گزشتہ زمانہ میں دستور تھا اور اب بھی ہے کہ جب حجاج اپنے گھر واپس آتے تھے تو لوگ ان کے استقبال کے واسطے جایا کرتے تھے اور ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اس شخص کی مغفرت ہوچکی ہے اور یہ گناہوں سے پاک ہو کر آیا ہے اس سے مل کر مصافحہ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دنیا میں ملوث ہوجائے تاکہ ہم کو بھی ان سے کچھ فیض پہنچے۔ اگرچہ آج کل یہ غرض کم اور نام و نمود کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ چناچہ اس حدیث میں بھی حاجی سے سلام و مصافحہ کرنے کے لئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس وقت تک دنیا میں ملوث اور اپنے اہل و عیال میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اس وقت تک وہ اللہ کے راستہ ہی میں ہوتا ہے اور گناہوں سے پاک و صاف ہوتا ہے اور اس صورت میں حاجی چونکہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ اس سے اپنے لئے مغفرت و بخشش کی دعا کراؤ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور تمہیں مغفرت و بخشش سے نوازے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا، جہاد کرنے والا اور دینی طالب علم بھی حاجی کے حکم میں یعنی جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے گھر آئیں تو ان سے بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام و مصافحہ کیا جائے اور دعاء بخشش و مغفرت کی درخواست کی جائے کیونکہ یہ لوگ بھی مغفور ہوتے ہیں۔
Top