مشکوٰۃ المصابیح - افعال حج کا بیان - حدیث نمبر 2550
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تسافر امرأة مسيرة يوم وليلة إلا ومعها ذو محرم
خاوند یا محرم کے بغیر عورت کے سفر کی حد
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کوئی عورت ایک دن و ایک رات کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے علاوہ یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس موقع پر حدیث اور فقہی روایت کا تضاد سامنے آسکتا ہے وہ یوں کہ ہدایہ میں جو فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہے لکھا ہے کہ عورتوں کو بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر مباح ہے جس کی مسافت حد سفر سے (کہ وہ تین منزل یعن ٤٨ میل سے کم ہو) لیکن یہاں حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر بھی نہیں کرسکتی جس کی مسافت ایک دن و ایک رات (ایک منزل یا ١٦ میل کے سفر کے بقدر ہو۔ نیز بخاری و مسلم میں بھی یہ ایک روایت منقول ہے کہ کوئی عورت دو دن کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے الاّ یہ کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم ہو۔ لہٰذا فقہاء کا قول بظاہر ان روایات کے مخالف نظر آتا ہے لیکن اس تضاد و اختلاف کو دور کرنے کے لئے علماء یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مطلق طور پر جو یہ منقول ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو چونکہ شرعی طور پر سفر کا اطلاق تین دن سے کم پر نہیں ہوتا اس لئے فقہاء نے اس حدیث کو تین دن (٤٨ میل) کی مسافت کے بقدر سفر پر محمول کیا ہے اور یہ فقہی قاعدہ مرتب کردیا کہ کوئی عورت اتنی دور کا سفر کہ جو تین دن کی مسافت کے بقدر ہو بغیر خاوند یا محرم کے نہ کرے اور جب تین دن کی مسافت کے بقدر تنمہا سفر نہیں کرسکتی تو اس سے زائد مسافت کا سفر کرنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہوگا۔ اور جن حدیثوں میں دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر سفر سے بھی منع کیا گیا ہے تو اس کو فتنہ و فساد پر محمول کیا ہے کہ اگر سفر تین دن کی مسافت سے بھی کم یعنی دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر ہو اور کسی فتنہ و فساد مثلاً عورت کی عزت و آبرو پر حرف آنے کا گمان ہو تو اس صورت میں بھی عوت کو تنہا سفر نہیں کرنا چاہئے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جہاں تین دن کی مسافت کے بقدر سفر کی ممانعت منقول ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ ہر منزل (یعنی ١٦ میل) ایک دن کے اکثر حصے میں طے ہوتی ہو تو اس طرح تین دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں دو دن کے سفر کی ممانعت ہے۔ تو اس کی مراد یہ ہے کہ تمام دن چلے یعنی ایک دن میں ڈیڑھ منزل (٢٤ میل) طے ہو اس طرح دو دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں ایک دن و رات کے سفر کی ممانعت ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ شب و روز چلے، یعنی ڈیڑھ منزل پورے دن میں طے ہو ڈیڑھ منزل پوری رات میں طے ہو اس طرح ایک دن و رات میں تین منزلیں طے ہوں گی۔ اس تاویل کی وجہ سے ان تمام روایات کا مقصد تین دن کی مسافت کے بقدر عورت کو تنہا سفر کرنے سے روکنا ثابت ہوجائے گا اور تمام روایات میں باہم کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات دل کو زیادہ لگتی ہے کہ ان تمام روایات ( کہ جن سے عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور جن میں حد سفر کے بارے میں اختلاف نظر آ رہا ہے) کا مقصد سفر کی کسی حد اور مدت کو متعین کرنا نہیں ہے بلکہ ان روایات کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ عورت بغیر خاوند یا محرم تنہا سفر مطلقاً نہ کرے مسافت چاہے طویل ہو اور چاہے کتنی ہی مختصر ہو۔ لہٰذا موجودہ دور میں جب کہ فتنہ فساد کا خوف عام ہے اور انسانی ذہن غلط طریقہ تعلیم و تربیت اور فاسد ماحول کی وجہ سے بےحیائی اور فحاشی کا مرکز بن گئے ہیں تو احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت مطلقاً تنہا سفر نہ کرے سفر چاہے تھوڑی دور کا ہو چاہے زیادہ فاصلے کا۔ اس لئے کہ فتنہ و فساد کا خوف بہر صورت رہتا ہے۔
Top