مشکوٰۃ المصابیح - افعال حج کا بیان - حدیث نمبر 2540
عن أبي هريرة قال : : خطبنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا أيها الناس قد فرض عليكم الحج فحجوا فقال رجل : أكل عام يا رسول الله ؟ فسكت حتى قالها ثلاثا فقال : لو قلت : نعم لوجبت ولما استطعتم ثم قال : ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم فإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فدعوه . رواه مسلم
حج عمر بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لھذا تم حج کرو یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم ہر سال حج کریں؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس شخص نے تین مرتبہ یہی بات کہی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا ہوں تو یقینا حج ہر سال کے لئے فرض ہوجاتا اور تم ہر سال حج کرنے پر قادر نہیں ہوسکتے تھے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا جب تک میں تمہیں چھوڑوں تم مجھے چھوڑ دو (یعنی جو کچھ میں نہ کہا کروں مجھ سے مت پوچھا کرو) کیونکہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں یعنی یہود و نصاریٰ وہ اسی سبب سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء سے پوچھتے اور ان سے اختلاف کرتے تھے (جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں منقول ہے) لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو اور جب میں تمہیں کسی بات سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔ (مسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے جب حج کی فرضیت کا فرمان نازل فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے اس کو امت کے اوپر نافذ کرنے کے لئے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حج کریں چناچہ جب آپ ﷺ لوگوں کے سامنے حج کی فرضیت بیان فرما رہے تھے اور انہیں حج کرنے کا حکم دے رہے تھے تو ایک صحابی جن کا نام اقرع بن حابس ؓ تھا پوچھ بیٹھے کہ حج ہر سال کیا جائے گا؟ وہ یہ سمجھے کہ جس طرح دیگر عبادتیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ بار بار ادا کی جاتی ہیں اسی طرح یہ حج بھی مکرر ہی ہوگا اسی لئے انہوں نے یہ سوال کیا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کو یہ بات ناگوار ہوئی اس لئے آپ ﷺ نے پہلے تو تنبیہا سکوت اختیار فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ جب انہوں نے کئی بار پوچھا تو آخر کار آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اگر میں اس سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتا تو یقینا ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا کیونکہ میں یہ جواب اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب دیتا بغیر اس کے حکم سے میری زبان سے کوئی تشریعی بات نہیں نکلتی اور اگر ہر سال حج فرض ہوجاتا تو تم میں اتنی طاقت نہ ہوتی کہ ہر سال اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہوتے۔ پھر آپ ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ کسی بھی دینی حکم کو مجھ پر چھوڑ دو، جب میں کسی فعل کا حکم دوں تو مجھ سے یہ نہ پوچھوں کہ یہ فعل کتنا ہے اور کیسا ہے جب تک میں خود یہ بیان نہ کروں کہ یہ فعل کتنا کیا جائے اور کس طرح کیا جائے۔ میں جس طرح کہوں تم اسی طرح ادا کرو۔ اگر کسی فعل کے بارے میں بلا قید و تعین اعداد کے مطلق حکم کروں تو اس حکم کی اسی طرح بجا آوری کرو اور اگر یہ بیان کروں کہ اس فعل کو اتنی بار اور اس طرح کرو تو اسے اتنی ہی بار اور اسی طرح کرو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں دنیا میں اسی لئے آیا ہوں کہ تم تک اسلام کے احکام پوری وضاحت کے ساتھ پہنچا دوں اور شریعت کو بیان کر دوں جو بات جس طرح ہوتی ہے اسے اسی طرح بیان کردیتا ہوں۔ تمہارے سوال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر آخر میں آپ ﷺ نے احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں تائید و مبالغہ کے طور پر فرمایا کہ فا توا منہ ما استطعتم (اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو) یعنی اللہ اور رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرنے کی تم جتنی بھی طاقت رکھتے ہو اس کے مطابق عمل کرو یا پھر یہ کہ اس جملے کے ذریعہ آپ ﷺ نے رفع حرج پر اشارہ فرمایا کہ مثلاً نماز کے بعض شرائط و ارکان ادائیگی سے تم اگر عاجز ہو تو جس قدر ہو سکے اسی قدر کرو، جو تم سے نہ ہو سکے اسے چھوڑ دو جیسے اگر تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرسکو تو بیٹھ کر نماز پڑھو، اگر بیٹھ کر پڑھنے سے بھی عاجز ہو تو لیٹے ہی لیٹے پڑھو مگر پڑھو ضرور، اسی پر دوسرے احکام و اعمال کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔
Top