حج کب فرض ہوا؟
فرضیت حج کی سعادت عظمی ہمارے آقا سرکار دو عالم ﷺ کی امت کے ساتھ مختص ہے گو کہنے کو تو حج کا رواج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے ہے مگر اس وقت اس کی فرضیت کا حکم نہ تھا۔ چناچہ صحیح مسلک یہی ہے کہ حج صرف امت محمدیہ پر فرض ہوا ہے۔ حج کب فرض ہوا؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کچھ حضرات کہتے ہیں سن ٥ ھجری میں فرض ہوا، اکثر علما سن ٦ ھجری میں فرضیت کے قائل ہیں لیکن زیادہ صحیح قول ان علماء کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حج سن ٩ ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا آیت (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا)۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج (ضروری) ہے اور یہ اس شخص پر جو وہاں تک جاسکے۔ چونکہ یہ حکم سال کے آخر میں نازل ہوا تھا اس لئے آپ ﷺ تو فعال حج کی تعلیم میں مشغولیت اور آئندہ سال کے لئے سفر حج کے اسباب کی تیاری میں مصروفیت کی وجہ سے خود حج کے لئے تشریف نہیں لے جاسکے، بلکہ اس سال یعنی سن ٩ ھ میں حضرت ابوبکر ؓ کو حاجیوں کا امیر مقرر فرما کر مکہ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کو حج کرا دیں اور پھر آپ ﷺ خود سال آئندہ یعنی سن ١٠ ھ میں اس حکم الٰہی کی تعمیل میں حج کے لئے تشریف لے گئے یہ عجیب اتفاق ہے کہ فرضیت کے بعد آپ ﷺ نے یہی پہلا حج کیا جو آخری حج بھی ثابت ہوا۔ چناچہ یہی حج حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے اسی حج کے بعد آپ ﷺ کے چہرہ عالمتاب اور وجود پر نور نے اس دنیا سے پردہ کیا۔