مشکوٰۃ المصابیح - جامع دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2518
وعن أبي هريرة : أن أعرابيا أهدى لرسول الله صلى الله عليه و سلم بكرة فعوضه منها ست بكرات فتسخط فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : إن فلانا أهدى إلي ناقة فعوضته منها ست بكرات فظل ساخطا لقد هممت أن لا أقبل هدية إلا من قرشي أو أنصاري أو ثقفي أو دوسي . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي (2/184) 3023 - [ 8 ] ( لم تتم دراسته ) وعن جابر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : من أعطي عطاء فوجد فليجز به ومن لم يجد فليثن فإن من أثنى فقد شكر ومن كتم فقد كفر ومن تحلى بما لم يعط كان كلابس ثوبي زور . رواه الترمذي وأبو داود
ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی دولت نہیں
حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے رونے لگے اور پھر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش و عافیت مانگو کیونکہ کسی کو ایقان (ایمان) کے بعد عافیت سے بہتر کوئی عمل نہیں اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے، نیز امام ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث باعتبار سند کے حسن غریب ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ میری امت کے افراد خواہشات نفس، ہوس و حرص اور غلبہ شہوت کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے اس لئے آپ ﷺ اس کے تصور سے بھی رونے لگے کہ جس امت کے لوگوں کو ایمان و ایقان کی دولت اسلام کی ہدایت اور میری تربیت نے ضبط نفس ایثار و استغناء، دیانت و امانت، عزت و خدداری، پاک دامنی و پرہیزگاری کے معیار پر نہ صرف پورا اتارا بلکہ انہیں ان اخلاق حمیدہ اور خصائل شریفہ کا بذات خود معیار بنادیا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اسی امت کے لوگ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس کر اور اپنے نفس کے تابع ہو کر حرص و ہوس کے مجسمے، بددیانتی و بد کرداری کے پیکر اور خواہشات نفسانیہ کے غلام بن جائیں گے چناچہ آپ ﷺ نے منبر رشد و ہدایت سے یہ حکم فرمایا کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی طلب کریں اور عافیت مانگیں تاکہ پروردگار انہیں ان آفات و بلاء سے محفوظ و مامون رکھے۔ عافیت کے معنی ہیں سلامتی حاصل ہونا دین میں فتنہ سے اور جسم و بدن کو بری بیماریوں، شدید مصائب اور سخت رنج و تکلیف سے۔
Top