مشکوٰۃ المصابیح - مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2457
وعن عبد الله بن يسر قال : نزل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي فقربنا إليه طعاما ووطبة فأكل منها ثم أتي بتمر فكان يأكله ويلقي النوى بين أصبعيه ويجمع السبابة والوسطى وفي رواية : فجعل يلقي النوى على ظهر أصبعيه السبابة والوسطى ثم أتي بشراب فشربه فقال أبي وأخذ بلجام دابته : ادع الله لنا فقال : اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم . رواه مسلم
مہمان اور میزبان کے لئے کچھ مسنون باتیں
حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ میرے والد کے پاس بطور مہمان تشریف لائے چناچہ ہم نے کھانا اور مالیدہ کی مانند ایک چیز آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی آپ ﷺ نے اسے تناول فرمایا پھر خشک کھجور پیش کی گئی آپ ﷺ کھجور کھاتے اور اس کی گٹھلی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان ڈالتے جاتے اور اس کے لئے آپ اپنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی یکجا کئے ہوئے تھے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہے کہ آپ ﷺ (بائیں ہاتھ کی) اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی پشت پر گٹھلیاں ڈالتے جاتے تھے بہرکیف اس کے بعد پانی پیش کیا گیا جسے آپ ﷺ نے پیا پھر میرے والد نے جو آپ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرمائیے چناچہ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی دعا (اللہم بارک لہم فیما رزقتہم واغفر لہم وارحمہم)۔ اے اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ روزی رزق دیا ہے اس میں برکت فرما ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔ (مسلم)

تشریح
کھجوریں کھاتے ہوئے آپ ﷺ ان کی گٹھلیوں کو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر جمع کرتے جاتے تھے۔ اب ایک روایت تو یہ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے تھے اور ایک روایت یہ بتارہی ہے کہ دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے تھے بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ آپ ﷺ گٹھلیوں کو دوں انگلیوں کے درمیان کبھی رکھے جاتے ہوں گے اور کبھی دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے جاتے ہوں گے تو ان دونون روایتوں میں کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا۔ اور پھر پشت پر انگلیوں کی، گٹھلیوں کو ڈالنے کی وجہ یہ تھی تاکہ ہاتھ کے اندر کا رخ گٹھلیوں میں لگے ہوئے لعاب وغیرہ سے ملوث نہ ہو کیونکہ اندر کی صفائی اور ستھرائی باہر کی صفائی اور ستھرائی سے اولیٰ ہے۔ یہ حدیث ایسی کئی باتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو مہمان اور میزبان کے لئے مسنون کا درجہ رکھتی ہے۔ مثلا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکابر اور مہمان کی سواری کی رکاب اور لگام کو از راہ تواضع اور خطر داری پکڑنا مسنون ہے۔ اسی طرح مہمان کو رخصت کرنے کے لئے مکان کے دروازے یا باہر کچھ دور تک اس کے ساتھ جانا سنت ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میز بان کے لئے تو یہ مسنون ہے کہ وہ مہمان سے طلب دعا کرے اور مہمان کے لئے یہ مسنون ہے کہ میزبان کے لئے دعا کرے۔
Top