مشکوٰۃ المصابیح - رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان - حدیث نمبر 2405
عن عقبة بن عامر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن مثل الذي يعمل السيئة ثم يعمل الحسنات كمثل رجل كانت عليه درع ضيقة قد خنقته ثم عمل حسنة فانفكت حلقة ثم عمل أخرى فانفكت أخرى حتى تخرج إلى الأرض رواه في شرح السنة
جزاء اور سزا میں رحمت الٰہی کا ظہور
حضرت عقبہ بن عامر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص برائیاں کرتا ہو اور پھر نیکیاں کرنے لگے اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے جسم پر تنگ زرہ ہو اور اس زرہ کے حلقوں نے اس کے جسم کو بھینج رکھا ہو پھر وہ نیکی کرے اور اس کی زرہ کا ایک حلقہ کھل جائے پھر وہ دوسری نیکی کرے اور دوسرا حلقہ کھل جائے یہاں تک کہ اسی طرح اس کے حلقے کھلتے رہیں اور وہ ڈھیلی ہو کر زمین پر گرپڑے۔ (شرح السنہ)

تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کرنے سے سینہ تنگ و تاریک ہوجاتا ہے اور برائی کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے تمام امور میں ضمیر کی صحیح رہنمائی سے محروم ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی تمام فکری اور عملی راہوں پر یقین و اعتماد اور سکون و استقلال کے نور کی بجائے تحیر و گھبراہٹ اور اضطراب عدم استقلال کے تاریک سایہ ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی نظروں میں بےوقعت اور کمتر ہوجاتا ہے اور تمام ہی نیکی پسند انسان اسے غصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے برعکس نیکی کرنے سے سینہ کشادہ اور فراخ ہوتا ہے اور نیکی کرنے والا اپنے ہر کام میں آسانی و سہولت اور یقین و اعتماد کے سکون آمیز اثرات محسوس کرتا ہے نیز یہ کہ وہ لوگوں کی نظر میں محبوب و پسندیدہ اور باوقعت رہتا ہے۔ حدیث بالا میں اسی بات کو تنگ زرہ سے مشابہت دی گئی ہے کہ تنگ زرہ پہننے سے جسم تنگی اور بےچینی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کا زرہ کا بدن پر سے کھلنا فراخی اور خوش دلی کا باعث ہوتا ہے۔
Top