مشکوٰۃ المصابیح - رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان - حدیث نمبر 2399
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قال رجل لم يعمل خيرا قط لأهله وفي رواية أسرف رجل على نفسه فلما حضره الموت أوصى بنيه إذا مات فحرقوه ثم اذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فو الله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فلما مات فعلوا ما أمرهم فأمر الله البحر فجمع ما فيه وأمر البر فجمع ما فيه ثم قال له : لم فعلت هذا ؟ قال : من خشيتك يا رب وأنت أعلم فغفر له
اللہ تعالیٰ کی نکتہ نوازی
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص تھا جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس نے اپنے نفس پر زیادتی کی تھی یعنی بہت ہی زیادہ گناہ کئے تھے جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب وہ یعنی خود مرجائے تو اس کو یعنی مجھے جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دینا اور آدھی راکھ دریا میں بہا دینا کیونکہ قسم اللہ کی اگر اللہ نے اس سے مواخذہ کرلیا اور حساب میں سختی کی تو وہ اس کو ایسا عذاب دے گا کہ آج تک عالم کے لوگوں میں سے کسی کو نہ دیا ہوگا، چناچہ جب وہ شخص مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا کہ اس کو جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دی اور آدھی کو دریا میں بہا دیا اللہ تعالیٰ نے دریا کو اس کی راکھ جمع کرنے کا حکم دیا اور اس نے وہ راکھ جو اس کے اندر تھی جمع کی اور جنگل کو حکم دیا اور اس نے بھی جو راکھ اس کے اندر تھی جمع کی جب دریا اور جنگل نے اس کے اجزاء جمع کر لئے تو اس شخص کو ان اجزاء سے استوار کر کے حق تعالیٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حق تعالیٰ نے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ پروردگار! تیرے خوف سے! تو حقیقت و حال کو خوب جانتا ہے اللہ نے یہ سن کر اسے بخش دیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
وہ شخص یہ سمجھا تھا کہ عذاب صرف اسی کو ہوتا ہے جو دفن کیا جاتا ہے چناچہ اپنی بد عمل زندگی اور گناہوں کی زیادتی کو دیکھتے ہوئے اس نے انتہائی خوف و ڈر کی وجہ سے یہ وصیت کردی کہ مجھے جلا کر میری راکھ کو بکھیر کر اڑا دینا، اللہ تعالیٰ بڑا ہی نکتہ نواز ہے۔ اس کو بس یہی بات پسند آگئی اس لئے اس نے بخش دیا۔ لئن قدر اللہ کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اس سے مواخذہ کرلیا اور حساب میں سختی کی۔ اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس شخص کی مراد اس کے لفظی معنی ہی تھے یعنی اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیا۔ تو پھر یہ اشکال پیدا ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک وشبہ کا اظہار کیا جو ظاہر ہے کہ بالکل کفر ہے۔ اس اشکال کے علماء نے کئی جواب دئیے ہیں ان ہی میں سے ایک جواب یہ ہے کہ زمانہ فترت کی بات ہے اس وقت چونکہ کوئی نبی نہیں تھا اور ایسے میں صرف توحید پر ایمان و اعتقاد ہی نجات کے لئے کافی تھا۔ اس لئے اس قسم کے شک وشبہ کے اظہار سے نہ کفر لازم آتا ہے اور نہ اس سے ابدی نجات پر کوئی اثر پڑتا تھا۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس شخص نے یہ بات دہشت وخوف کے غلبہ کی بنا پر کہہ دی اور ایسی صورت میں انسان مجنون اور مغلوب العقل کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ گزشتہ باب ہی کی ایک حدیث میں اس شخص کے بارے میں نقل کیا گیا ہے جسے اپنی گمشدہ سواری مل گئی اور خوشی ومسرت کے غلبہ اور زیادتی کی وجہ سے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ انت عبدی وانا ربک۔ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔
Top