مشکوٰۃ المصابیح - استغفار وتوبہ کا بیان - حدیث نمبر 2388
وعن الحارث بن سويد قال : حدثنا عبد الله بن مسعود حديثين : أحدهما عن رسول الله صلى الله عليه و سلم والآخر عن نفسه قال : إن المؤمن يرى ذنوبه كأنه قاعد تحت جبل يخاف أن يقع عليه وإن الفاجر يرى ذنوبه كذباب مر على أنفه فقال به هكذا أي بيده فذبه عنه ثم قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لله أفرح بتوبة عبده المؤمن من رجل نزل في أرض دوية مهلكة معه راحلته عليها طعامه وشرابه فوضع رأسه فنام نومة فاستيقظ وقد ذهبت راحلته فطلبها حتى إذا اشتد عليه الحر والعطش أو ما شاء الله قال : أرجع إلى مكاني الذي كنت فيه فأنام حتى أموت فوضع رأسه على ساعده ليموت فاستيقظ فإذا راحلته عنده عليها زاده وشرابه فالله أشد فرحا بتوبة العبد المؤمن من هذا براحلته وزاده . روى مسلم المرفوع إلى رسول صلى الله عليه و سلم منه فحسب وروى البخاري الموقوف على ابن مسعود أيضا
اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے
حضرت حارث بن سوید (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں ایک تو انہوں نے رسول کریم سے نقل کی اور دوسری اپنی طرف سے بیان کی چناچہ انہوں نے فرمایا مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور خوفزدہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گرپڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اس مکھی کو جو اس کی ناک پر اڑے اور وہ اس کی طرف اس طرح یعنی اپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اور اسے اڑا دے حاصل یہ کہ مومن گناہ سے بہت ڈرتا ہے اور اسے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میں اس گناہ کی پاداش میں پکڑا نہ جاؤں اس لئے اس کی نظر میں چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی وہی اہمیت رکھتے لیکن فاجر اپنے گناہوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اس کی نظر میں بڑے سے بڑے گناہ کی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنے سفر کے دوران کسی ایسے ہولناک میدان میں اترے جہاں سبزہ و درخت کا نام و نشان تک نہ ہو اور اس کے ساتھ جو سواری ہو اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو پھر وہ استراحت کے لئے وہیں زمین پر سر رکھ کر ایک نیند سو گیا ہو اور جب جاگنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ سامان سے لدی ہوئی اس کی سواری گم ہوگئی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ہوگیا ہو یہاں تک کہ گرمی کی تپش اور پیاس کی شدت اور گرمی اور پیاس کے علاوہ دوسری تکلیف اور پریشانی کی ان چیزوں نے جو اللہ کو منظور تھیں اس پر غلبہ پا لیا ہو تو اس نے کہا ہو کہ میں اپنی جگہ لوٹ چلوں جہاں میں سر رکھ کر سویا تھا وہیں سو جاؤں تاکہ نیند کی حالت میں میرا خاتمہ ہوجائے چناچہ وہ اپنے بازو پر سر رکھ کر موت کے انتظار میں سو رہا ہو کہ اس کی آنکھ کھل جائے اور اچانک وہ دیکھے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان موجود تھا پس اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری اور اپنے کھانے پینے کا سامان پا کر خوش ہوتا ہے۔ مسلم نے ان دونوں روایتوں میں سے صرف اس روایت کو نقل کیا ہے جسے ابن مسعود ؓ نے آنحضرت ﷺ سے نقل کیا (یعنی جس میں مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کا بیان ہے) اور اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے جسے ابن مسعود ؓ نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے اور جس میں گناہ کے بارے میں مومن اور فاجر کے فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بخاری نے اس روایت کو بھی نقل کیا ہے جسے ابن مسعود ؓ نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے حاصل یہ کہ حدیث مرفوع کو تو بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن حدیث موقوف کو صرف بخاری نے نقل کیا ہے۔

تشریح
پہلی فصل میں بھی اس قسم کی حدیث گزر چکی ہے وہاں بھی بتایا گیا ہے کہ بندہ کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ سے راضی ہوتا ہے اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے گویا اس حدیث سے اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّ وَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ ) 2۔ البقرۃ 222)۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک بہت بڑے عالم با عمل حضرت استاد ابی اسحق اسفرائی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مسلسل تیس برس تک یہ دعا کی کہ مجھے توبہ نصوح کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی میں نے اپنے دل میں بہت تعجب کیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی پاک اور مستغنی ہے کہ میں نے تیس برس تک اپنی ایک خواہش کی تکمیل کی دعا کی لیکن وہ بارگاہ الوہیت میں قبولیت سے نہیں نوازی گئی کہ جب ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے تمہیں اس بات پر تعجب ہے کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ تم مانگ کیا رہے ہو؟ تمہاری دعا کا حقیقی منشاء تو یہی ہے کہ اللہ تمہیں دوست اور محبوب نہ رکھے؟ تو کیا تم نے اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت نہیں سنی کہ آیت (ان اللہ یحب التوابین ویحت المتطہرین) لہٰذا اس خواہش کی تکمیل نہ صرف یہ کہ بہت ہی آسان ہے بلکہ اس کی بشارت بھی دی جا چکی ہے۔
Top