مشکوٰۃ المصابیح - استغفار وتوبہ کا بیان - حدیث نمبر 2379
وعن ابن عباس : في قوله تعالى : ( إلا اللمم ) قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن تغفر اللهم تغفر جما وأي عبد لك لا ألما رواه الترمذي . وقال : هذا حديث حسن صحيح غريب
گنہگار رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول الا اللمم کی تفسیر کے ضمن میں روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ شعر پڑھا۔ ان تغفر اللہم تغفر جما وای عبدلک لا الما اگر بخشے تو اے الٰہی! تو بڑے سے گناہ بخش دے۔ اور تیرا کون سا بندہ ہے جس نے چھوٹے گناہ نہ کئے ہوں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تشریح
الا اللمم ایک آیت کا ٹکڑا ہے اور پوری آیت یہ ہے۔ آیت (اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰ ى ِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ) 53۔ النجم 32)۔ اور (جن نیکو کاروں کا پیچھے ذکر ہوا) یہ وہ لوگ ہیں جو پرہیز کرتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بےحیائی کی باتوں سے علاوہ چھوٹے گناہوں (کہ جن سے بچنا ممکن نہیں ہے) اور بیشک تیرا رب مغفرت کا وسیع کرنے والا ہے۔ پس آیت میں چھوٹے گناہوں کا جو استثناء کیا گیا ہے اسی کی دلیل کے طور پر آنحضرت ﷺ نے مذکورہ بالا شعر پڑھا کہ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی مومن صغیرہ گناہوں سے خالی نہیں ہوتا۔ شعر کا حاصل یہ ہے کہ پروردگار تیری شان رحمت ایسی ہے اور تیرے فضل و کرم کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اگر تو چاہے تو کبیرہ گناہوں کو بھی بخش دے چھوٹے گناہوں کی تو حقیقت ہی کیا ہے اور پھر تیرا کون سا بندہ ایسا ہے جو چھوٹے گناہ نہیں کرتا اور تو اسے نہیں بخشتا بلکہ تو ان چھوٹے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعہ جھاڑتا رہتا ہے اور اس طرح ان بندوں کو چھوٹے گناہوں کے بوجھ سے بچاتا ہے۔ یہ شعر جسے آنحضرت ﷺ نے پڑھا امیہ بن صلت کا ہے جو ایام جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے ہے امیہ اس وقت بھی بہت زیادہ عبادت کرتا تھا اور قیامت پر اعتقاد کرتا تھا اگرچہ اس نے اسلام کا زمانہ پایا ہے مگر مسلمان ہونے کی سعادت سے محروم رہا۔ امیہ چونکہ حکمت آمیز اشعار کہا کرتا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نہ صرف یہ کہ اس کے اشعار سنتے ہی تھے بلکہ کبھی کبھی خود انہیں پڑھا کرتے تھے۔
Top