مشکوٰۃ المصابیح - استغفار وتوبہ کا بیان - حدیث نمبر 2373
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر . رواه الترمذي وابن ماجه
قبولیت توبہ کا آخری وقت
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت نہ شروع ہوجائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
غرغرہ، انسانی زندگی کا وہ آخری درجہ ہے جب جسم و روح کا تعلق اپنے انقطاع کے انتہائی نقطہ کے بالکل قریب ہوتا ہے جان پورے بدن سے کھنچ کر حلق میں آجاتی ہے سانس اکھڑ کر صرف غرغر کی سی آواز میں تبدیل ہوجاتا ہے اور زندگی کی بالکل آخری امید بھی یاس و نا امیدی کے درجہ یقین پر پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی میں جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک موت کا یقین نہیں ہوتا اس وقت تک تو توبہ قبولیت سے نوازی جاتی ہے مگر جب موت کا بالکل یقین ہوجائے یعنی مذکورہ بالا کیفیت شروع ہوجائے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اس حدیث کے ظاہری اور واضح مفہوم سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے وقت مطلقاً توبہ صحیح نہیں ہوتی خواہ کفر سے توبہ ہو یا گناہوں سے یعنی اس وقت نہ تو کافر کا ایمان لانا صحیح و درست ہوگا اور نہ مسلمان کی گناہوں سے توبہ صحیح ہوگی چناچہ قرآن کریم کی آیت (وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّ يِّاٰتِ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْ ٰنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰ ى ِكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِ يْمًا) 4۔ النساء 18) سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ گناہوں سے توبہ تو صحیح ہوگی لیکن کفر سے توبہ صحیح نہیں ہوگی گویا ان حضرات کے نزدیک یاس و ناامید کا ایمان غیر مقبول ہے اور یاس کی توبہ مقبول ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ بالا کے تحت جو حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق گناہوں سے توبہ کرنے سے ہے کہ حالت غرغرہ میں توبہ قبول نہیں ہوتی لیکن ایسی حالت میں اگر کسی سے اس کا کوئی حق معاف کرایا جائے اور وہ صاحب حق معاف کر دے یہ صحیح ہوگا۔
Top