مشکوٰۃ المصابیح - استغفار وتوبہ کا بیان - حدیث نمبر 2372
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن المؤمن إذا أذنب كانت نكتة سوداء في قلبه فإن تاب واستغفر صقل قلبه وإن زاد زادت حتى تعلو قلبه فذلكم الران الذي ذكر الله تعالى ( كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون ) رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح
گناہ کی زیادتی قلب کو زنگ آلود کردیتی ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کردیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ران یعنی زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ۔ آیت (کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون)۔ یوں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر یہ اس چیز یعنی گناہ کا زنگ ہے جو وہ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے دلوں پر خیر و بھلائی بالکل باقی نہیں رہی۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں گناہ میں زیادتی ہوتی جاتی ہے توں توں وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے قلب پر حاوی ہوجاتا ہے اور قلب کے نور کو ڈھانپ لیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مومن دل کی بینائی سے محروم ہوجاتا ہے چناچہ نہ تو نفع دینے والے علوم اور نفع دینے والے نیک اعمال ہی کی کوئی اہمیت اس کی نظروں میں باقی رہتی ہے اور نہ فائدہ مند عقل و حکمت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے اس طرح وہ شفقت و رحمت کے حیات آفرین وصف سے خالی ہوجاتا ہے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ہے اور نہ دوسروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے اور آخر کار اس کے قلب میں ظلم وجہل اور شر و فتنہ کی تاریکی اپنا تسلط جما لیتی ہے جس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ گناہ پر اس کی جرات بڑھ جاتی ہے اور معصیت آمیز زندگی ہی اس پر چھا جاتی ہے۔
Top