مشکوٰۃ المصابیح - تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان - حدیث نمبر 2345
وعن يسيرة رضي الله عنها وكانت من المهاجرات قالت : قال لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم : عليكن بالتسبيح والتهليل والتقديس واعقدن بالأنامل فإنهن مسؤولات مستنطقات ولا تغفلن فتنسين الرحمة . رواه الترمذي وأبو داود
اوراد واذکار کو انگلیوں پر پڑھنا افضل ہے
حضرت یسیرہ ؓ جو مہاجرات میں سے ہیں فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہم عورتوں سے فرمایا کہ (سبحان اللہ لا الہ الا اللہ، سبحان الملک القدوس) یا سبوح القدوس رب الملائکۃ کو پڑھنا اپنے لئے ضروری قرار دو اور ان مذکورہ تسبیحات کو، اپنی انگلیوں پر شمار کرو کیونکہ ان انگلیوں سے پوچھا جائے گا اور ان کو گویائی دی جائے گی اور یاد رکھو، ذکر سے غافل مت ہونا یعنی ذکر کو ترک نہ کرنا، ورنہ رحمت سے تمہیں بھلایا جائے گا یعنی اگر ذکر کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤ گی تو اس کے بیشمار ثواب سے محروم ہوگی۔ (ترمذی، ابوداؤد )

تشریح
یہ تو سب جانتے ہیں کہ قیامت کے دن جسم انسانی کا ایک ایک عضو اپنے مالک کے اعمال کا گواہ اور شاہد بنے گا ارشاد ربانی ہے۔ آیت (یوم تشہد علیہم السنتہم وایدیہم وارجلہم بما کانوا یعملون)۔ یاد کرو اس دن کو جب کہ ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان چیزوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے ہیں۔ ارشاد گرامی ان انگلیوں سے پوچھا جائے گا میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انگلیوں سے پوچھے گا کہ بتاؤ تم نے دنیا میں کیا کیا ہے اور پھر جواب دینے کے لئے ان انگلیوں کو گویائی عطا فرمائے گا۔ چناچہ وہ انگلیاں اپنے مالک کے ان اچھے برے اعمال کی گواہی دیں گے۔ جو ان انگلیاں کے ذریعہ سرزد ہوئے تھے اس لئے آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تسبیحات کو اپنی انگلیوں پر شمار کرو تاکہ وہ کل قیامت کے دن تمہارے اس نیک عمل کی گواہی دیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اوراد و اذکار اور تسبیحات کو انگلیوں پر شمار کرنا افضل ہے اگرچہ تسبیح پڑھنا بھی جائز ہے نیز اس میں اس بات کی ترغیب بھی ہے کہ بندہ کی عقل و شعور کا تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے اعضاء جسمانی کو انہیں کاموں میں مشغول رکھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہوں اور اپنے ایک ایک عضو کو گناہ سے بچائے تاکہ قیامت کے دن کوئی بھی عضو گناہ کی گواہی دے کر عذاب الٰہی میں مبتلا نہ کرا دے۔
Top