مشکوٰۃ المصابیح - تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان - حدیث نمبر 2340
مروجہ تسبیح کا جواز
وہ تسبیح جو آج کل رائج ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھی بلکہ بعض لوگ تو گٹھلیوں یا سنگریزوں پر پڑھتے تھے اور بعض ڈورے میں گرہیں دیتے جاتے تھے اور اس کے ذریعہ شمار کرتے تھے لیکن یہ حدیث جس طرح گٹھلیوں اور سنگریزوں کے اوپر پڑھنے کے جواز کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان خاتون کو اس سے منع نہیں کیا اسی طرح مروجہ تسبیح کے جائز ہونے کی بھی صحیح اصل و بنیاد اور دلیل ہے کیوں یہ شمار کے سلسلہ میں پروئے ہوئے دانوں میں اور بغیر پروئے ہوئے میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح بغیر پروئے ہوئے یعنی گٹھلیوں یا سنگریزوں سے پڑھی جانے والی چیز کا شمار مقصود ہوتا تھا اسی طرح پروئے ہوئے دانوں کی تسبیح کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے اس لئے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تسبیح کی وہ شکل جو آج کل رائج ہے بدعت ہے تو اس پر اعتماد نہ کیا جائے چناچہ مشائخ نہ صرف یہ کہ اس کو جائز کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں یہ شیطان کے لئے کوڑا ہے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اس وقت جب کہ وہ تمام مدارج طے کر کے حالت منتہی کو پہنچ چکے تھے ان کے ہاتھوں میں تسبیح دیکھ کر کسی شخص نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جس کے ذریعہ ہم اللہ تک پہنچے ہیں اس لئے میں اسے کس طرح چھوڑ سکتا ہوں! واللہ اکبر مثل ذالک (اور اللہ اکبر بھی اسی طرح ہے) اس جملہ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ راوی کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم نے جس طرح تسبیح یعنی سبحان اللہ عدد ماخلق الخ پوری طرح بیان کی اسی طرح آپ ﷺ نے تکبیر کو پوری طرح بیان کیا یعنی اس طرح بیان فرمایا۔ اللہ اکبر عدد ماخلق الخ مگر راوی نے یہ اختصار کے پیش نظر اللہ اکبر مثلا ذالک کہہ کر بتادیا کہ آپ ﷺ نے بعد کے کلمات کی تعلیم بھی اسی طرح فرمائی۔ یا پھر یہ کہ راوی کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ خود نبی کریم ﷺ نے ہی اختصار کے پیش نظر عدد ماخلق فی السماء کہنے کی بجائے مثل ذالک پر اکتفا فرمایا اس طرح آپ ﷺ نے بتایا کہ جن الفاظ یعنی عدد ماخلق الخ کے ساتھ تسبیح پڑھی جائے انہیں الفاظ کے ساتھ تکبیر بھی پڑھی جائے۔ اس طرح بعد کے جملوں یعنی والحمدللہ مثل ذالک وغیر میں بھی یہی دونوں احتمال ہیں۔
Top