مشکوٰۃ المصابیح - اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2236
وعن زيد بن ثابت قال : أرسل إلي أبو بكر رضي الله عنه مقتل أهل اليمامة . فإذا عمر بن الخطاب عنده . قال أبو بكر إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى إن استحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال عمر هذا والله خير فلم يزل عمر يراجعني فيه حتى شرح الله صدري لذلك ورأيت الذي رأى عمر قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك وقد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه و سلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل علي مما أمرني به من جمع القرآن قال : قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله النبي صلى الله عليه و سلم . قال هو والله خير فلم أزل أراجعه حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر أبي بكر وعمر . فقمت فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت من سورة التوبة آيتين مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره ( لقد جاءكم رسول من أنفسكم ) حتى خاتمة براءة . فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة . رواه البخاري
قرآن جمع کرنے کی ابتدئ
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ جن دنوں اہل یمامہ کا قتل ہوا انہیں دنوں کی بات ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے کسی شخص کو میرے پاس مجھے بلانے کے لئے بھیجا میں ان کے پاس حاضر ہوا اور وہاں پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت عمر فاروق ؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ عمر ؓ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے قاریوں کی شہادت کا حادثہ یمامہ کے دن گرم ہوگیا (یعنی یمامہ کی لڑائی میں بہت سے قاری شہید ہوگئے ہیں) مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسی کثرت سے مختلف جنگوں میں قاریوں کی شہادت ہوتی رہی تو قرآن کا بہت بڑا حصہ جاتا رہے گا لہٰذا مجھے اسی میں بہتری اور مصلحت نظر آتی ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دے دیں (حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے یہ سن کر حضرت عمر ؓ سے کہا کہ تم اس کام کس طرح کرو گے جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا عمر ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ عمر ؓ نے اس مسئلہ میں برابر مجھ سے گفتگو کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام (یعنی قرآن جمع کرنے) کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔ اور مجھے بھی اس میں وہی مصلحت نظر آئی جو عمر ؓ نے دیکھی ہے حضرت زید ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان مرد ہو تمہاری نیک بختی اور سعادت کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے اور نقل کرنے کے سلسلے میں جھوٹ وغیرہ کا تم پر کوئی اتہام نہیں لگا سکتا کیونکہ تم رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کرو اور اس کو (مصحف میں) جمع کرو۔ حضرت زید ؓ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! اگر پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو اٹھا کر منتقل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جاتی تو یہ خدمت میرے لئے اس خدمت سے زیادہ سخت اور بھاری نہ ہوتی جو ابوبکر ؓ نے قرآن جمع کرنے کی میرے سپرد فرمائی تھی۔ حضرت زید ؓ کہتے ہیں کہ بہرکیف میں نے یہ حکم سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عرض کیا! کہ آپ وہ کام کسی طرح کریں گے جو رسول کریم ﷺ نے کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ مجھ سے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا سینہ کھولا تھا۔ چناچہ میں نے قرآن کو تلاش کرنا شروع کیا اس طرح کہ میں اس کو جمع کرتا تھا۔ کھجور کی شاخوں میں سفید پتھروں میں سے اور لوگوں میں سے (یعنی حافظوں کے سینوں میں سے) یہاں تک کہ میں نے سورت توبہ کا آخری حصہ ابوخزیمہ انصاری کے پاس پایا اور یہ حصہ مجھے ان کے سوا اور کسی کے پاس سے نہیں ملا اور وہ حصہ یہ ہے آیت (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الی آخر السورۃ، سورت برأت تک وہ صحیفے جو میں نے جمع اور نقل کئے تھے ان کی زندگی تک رہے اور پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ کے پاس رہے۔ (بخاری)

تشریح
یمامہ ایک شہر کا نام ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں ایک لشکر وہاں بھیجا۔ اور وہاں کے لوگوں سے خوب زوردار جنگ ہوئی جس میں مسیلمہ کذاب بھی مارا گیا مسلمانوں کے لشکر کا بھی بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ لشکر اسلام کے شہداء میں ان مقدس نفوس کی اکثریت بھی شامل تھی جن کے سینوں میں قرآن کریم محفوظ تھا۔ یعنی حفاظ اور قراء چناچہ بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس جنگ میں شہداء کی تعداد سات سو تھی اور بعضوں نے بارہ سو تک بتائی ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر حضرت عمر ؓ کو خیال ہوا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے معاملہ میں صرف ایک ہی ذریعہ یعنی حفاظ پر اعتماد اور بھروسہ کرلینا مناسب نہیں ہے بلکہ اس عظیم امانت کو حفاظ کے سینوں کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر بھی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ چناچہ انہوں نے اس کا تذکرہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کیا یہاں تک کہ حضرت ابوبکر ؓ نے کچھ تامل کے بعد اس رائے سے اتفاق کیا اور حضرت زید ؓ کو بلا کر اس عظیم خدمت پر معمور کیا۔ تم رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم اکثر رسول کریم ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے اکثر کی قید اس لئے لگائی کہ آنحضرت ﷺ کے پاس نازل ہونے والی وحی لکھنے والے چوبیس صحابہ تھے جن میں خلفاء اربعہ بھی تھے لہٰذا ابوبکر ؓ کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ چونکہ تم کاتب وحی ہو اس لئے قرآن کو جمع کرنے اور لکھنے کے سلسلہ میں تمہاری امانت داری اور فرض شناسی مسلم اور متیقن ہے۔
Top