مشکوٰۃ المصابیح - اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2235
وعن علقمة قال : كنا بحمص فقرأ ابن مسعود سورة يوسف فقال رجل : ما هكذا أنزلت . فقال عبد الله : والله لقرأتها على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : أحسنت فبينا هو يكلمه إذ وجد منه ريح الخمر فقال : أتشرب الخمر وتكذب بالكتاب ؟ فضربه الحد
حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ایک واقعہ
حضرت علقمہ (رح) کہتے ہیں کہ ہم حمص میں کہ (جو ایک شہر کا نام ہے) مقیم تھے وہیں ایک مرتبہ ابن مسعود نے سورت یوسف کی قرأت کی تو ایک شخص نے ان کی قرأت سن کر کہا کہ یہ سورت اس طرح نازل نہیں کی گئی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نے یہ سورت اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پڑھی ہے چناچہ آپ ﷺ نے اسے سن کر فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ وہ شخص جب حضرت ابن مسعود ؓ سے گفتگو کر رہا تھا تو اچانک حضرت ابن مسعود ؓ نے اس کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو محسوس کی حضرت ابن مسعود ؓ نے اس سے فرمایا تم شراب پیتے ہو؟ یعنی قرآن کے خلاف عمل کرتے ہو اور اس پر طرہ یہ کہ قرآن کریم کو یعنی اس کی قرأت کو یا قرأت کے لہجہ وطرز ادائیگی کو جھٹلاتے بھی ہو۔ پھر حضرت ابن مسعود ؓ نے اس پر حد جاری کی یعنی شراب پینے کی سزا کے طور پر اسے کوڑے مارے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اگر حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت، قرأت مشہورہ (یعنی متواترہ) تھی تو اس شخص نے اس قرت کی تکذیب کر کے کتاب اللہ کی تکذیب کی لہٰذا اس کے اس انکار اور تکذیب نے یقینا اسے کفر کی حد میں داخل کردیا تھا اور اگر ابن مسعود ؓ کی قرأت قرأت شاذ تھی تو ان کی اس قرأت کی تکذیب کتاب اللہ کی تکذیب کو مستلزم نہیں تھی اس لئے کہا جائے گا کہ اس صورت میں ابن مسعود ؓ کا اس شخص سے یہ کہنا کہ تم کتاب اللہ کی تکذیب کرتے ہو۔ تغلیظا اور تہدیداً تھا اور بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ اس موقع پر حضرت ابن مسعود ؓ کسی قرأت شاذ کے مطابق سورت یوسف پڑھ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس شخص کے مرتد ہوجانے کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ صرف شراب کی حد جاری کردینے ہی پر اکتفا کیا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس شخص کی یہ بات تغلیظاً ہی کہی کیونکہ قرأت و قرآن کے اصل کلمہ کا انکار اور جھٹلانا کفر ہے نہ کہ لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کفر کو مستلزم ہے۔ حاصل یہ کہ اس شخص نے لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کیا تھا اصل قرآن یا اصل قرأت کا انکار نہیں کیا تھا اسی لئے حضرت ابن مسعود ؓ نے اس پر صرف شراب کی حد جاری کی مرتد ہونے کی حد جاری نہیں کی۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے ایک اور مسئلہ پر روشنی پڑ رہی ہے اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس شخص کو شراب پینے کی سزا دی یعنی اس پر حد جاری کردی جب کہ شراب نوشی کا بظاہر واحد ثبوت اس کے منہ سے آنے والی بو تھی چناچہ علماء کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے یعنی ان کے نزدیک شراب نوشی کا جرم منہ سے شراب کی بو آنے سے بھی ثابت ہوجاتا ہے لیکن حنفیہ اور شوافع دونوں کا مسلک یہ ہے کہ شراب نوشی کا جرم محض منہ سے شراب کی بو آنے سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ایسے شخص پر شراب کی حد جاری کی جاسکتی ہے جس کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو اور اس کے علاوہ اس کی شراب نوشی کا اور کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ترش سیب اور امرود کی بو بعض شراب کی بو کے مشابہ ہوتی ہے۔ جہاں تک حضرت ابن مسعود ؓ کے اس واقعہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس شخص نے خود شراب نوشی کا اقرار کیا ہوگا یا اس کی شراب نوشی پر گواہ قائم ہوگئے ہوں گے اس وجہ سے انہوں نے حد جاری کی۔
Top