مشکوٰۃ المصابیح - اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2230
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أقرأني جبريل على حرف فراجعه فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف . قال ابن شهاب : بلغني أن تلك السبعة الأحرف إنما هي في الأمر تكون واحدا لا تختلف في حلال ولا حرام
اختلاف قرأت سے دینی احکام پر اثر نہیں پڑتا
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے پہلی مرتبہ مجھے ایک قرأت یعنی ایک لہجہ پر قرآن پڑھایا پھر میں نے اپنی امت کی آسانی کے لئے اللہ کی طرف مراجعت کی اور میں آسانی میں برابر زیادتی طلب کرتا رہا جس کے نتیجہ میں مجھے زیادہ آسانی حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی اور یہ آخری فیصلہ دے دیا گیا کہ قرآن کریم سات لغات پر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابن شہاب زہری (تابعی) (رح) کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ تک تحقیق طور پر پہنچی ہے کہ قرأت کے یہ سات طریقے دینی احکام و امور میں متفق و متحد ہیں حلال و حرام میں ان سے کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اختلاف قرأت سے قرآن کریم میں مذکور احکام و مسائل میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ قرآن کی کوئی آیت اگر ایک قرأت سے پڑھی جائے اور اس آیت میں کسی چیز کے حلال ہونے کا ذکر موجود ہو اور پھر جب وہی آیت دوسری قرأت سے پڑھی جائے تو اس اختلاف قرأت سے حکم میں تغیر ہوجائے اور وہی چیز جو پہلی قرأت سے حلال ثابت ہو رہی تھی اب دوسری قرأت کی بنا پر حرام ہوجائے ایسا نہیں بلکہ ایک قرأت سے کسی چیز کے حلال ہونے کا حکم ثابت ہوتا ہے تو دوسری قرأت سے بھی اس چیز کے حلال ہونے ہی کا حکم ثابت ہوتا ہے حاصل یہ کہ اختلاف قرأت کا تعلق صرف الفاظ لہجہ اور صوت سے ہے احکام ومعانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
Top