مشکوٰۃ المصابیح - لیلۃ القدر کا بیان - حدیث نمبر 2103
عن عبادة بن الصامت قال : خرج النبي صلى الله عليه و سلم ليخبرنا بليلة القدر فتلاحى رجلان من المسلمين فقال : خرجت لأخبركم بليلة القدر فتلاحى فلان وفلان فرفعت وعسى أن يكون خيرا لكم فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة . رواه البخاري
آنحضرت کو شب قدر کا علم اور اس کا نسیان
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ مسلمانوں میں سے دو شخص جھگڑنے لگے آپ ﷺ نے فرمایا میں باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کے بارے میں بتاؤں کہ وہ کون سی شب ہے مگر فلاں اور فلاں جھگڑنے لگے۔ چناچہ شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اور شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہو۔ لہٰذا تم شب قدر کو انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں میں تلاش کرو۔ (بخاری)

تشریح
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وہ دو اشخاص جو اس موقع پر جھگڑنے لگے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن ابی حذروا اور دوسرے کا نام کعب بن مالک تھا۔ شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی، کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں اشخاص کے جھگرنے کی وجہ سے شب قدر کے تعین کا علم میرے ذہن سے محو کردیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ آپس میں جھگڑنا اور منافرت و دشمنی اختیار کرنا بہت بری بات ہے اس کی وجہ سے آدمی برکات اور بھلائیوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہوگا، کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر کے بارے میں جو متعین طور پر مجھے بتادی گئی تھی اور اب وہ بھلا دی گئی ہے اگر میں تمہیں بتادیتا تو تم لوگ صرف اسی شب پر بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے، اب اس کے تعین کا علم نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ تم لوگ اسے پانے میں بہت زیادہ سعی و کوشش کرو گے بلکہ عبادت وطاعت میں زیادتی بھی ہوگی جو ظاہر ہے کہ تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے۔
Top