مشکوٰۃ المصابیح - لیلۃ القدر کا بیان - حدیث نمبر 2102
وعن عبد الله بن أنيس قال : قلت يا رسول الله إن لي بادية أكون فيها وأنا أصلي فيها بحمد الله فمرني بليلة أنزلها إلى هذا المسجد فقال : انزل ليلة ثلاث وعشرين . قيل لابنه : كيف كان أبوك يصنع ؟ قال : كان يدخل المسجد إذا صلى العصر فلا يخرج منه لحاجة حتى يصلي الصبح فإذا صلى الصبح وجد دابته على باب المسجد فجلس عليها ولحق بباديته . رواه أبو داود
شب قدر تئیسویں شب
حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا مکان جنگل میں ہے میں وہیں رہتا ہوں اور وہیں نماز پڑھتا ہوں اللہ کا شکر ہے لہٰذا آپ ﷺ مجھے اس رات کے بارے میں بتائیے جس میں میں اس مسجد میں آؤں (یعنی بتائیے کہ شب قدر کونسی ہے تاکہ میں اس رات میں مسجد نبوی آ کر عبادت کروں) آپ ﷺ نے فرمایا (رمضان کی) تئیسویں شب میں آؤ اس کے بعد حضرت عبداللہ کے صاحبزادے سے کہ جن کا نام صمرہ تھا پوچھا گیا کہ اس سلسلہ میں آپ کے والد مکرم کا کیا معمول تھا تو انہوں نے کہا کہ رمضان کی بائیسویں تاریخ کو میرے والد عصر کی نماز پڑھ کے مسجد نبوی میں داخل ہوتے اور صبح کی نماز تک کسی بھی کام سے جو اعتکاف کے منافی ہوتا مسجد سے باہر نہ نکلتے چناچہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد کے دروازے پر اپنی سواری کا جانور موجود پاتے اس پر سوار ہوتے اور اپنے جنگل چلے جاتے۔ (ابو داؤد)

تشریح
اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اس روایت سے لیلۃ القدر کا تعین لازم آتا ہے جب کہ وہ متعین نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ کو جس سال یہ بات بتائی تھی اس سال لیلۃ القدر تئیسویں شب میں آئی ہوگی جس کا علم آنحضرت ﷺ کو ہوگیا چناچہ آپ ﷺ نے ان سے فرما دیا کہ تئیسویں شب میں مسجد نبوی میں آجانا مگر حضرت عبداللہ ؓ اس سے یہ سمجھے کہ شب قدر ہر سال اسی تاریخ میں آتی ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آنحضرت ﷺ کو بھی شب قدر متعین طور پر معلوم نہیں تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ہر سال کی شب قدر کی تعیین معلوم نہیں تھی لہٰذا آپ کو کبھی کبھی شب قدر کا متعین طور پر معلوم ہوجانا اس کے منافی نہیں ہے۔
Top