مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2088
وعن الزهري عن عروة عن عائشة قالت : كنت أنا وحفصة صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه فقالت حفصة : يا رسول الله إنا كنا صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه . قال : أقضيا يوما آخر مكانه . رواه الترمذي وذكر جماعة من الحفاظ رووا عن الزهري عن عائشة مرسلا ولم يذكروا فيه عن عروة وهذا أصح ورواه أبو داود عن زميل مولى عروة عن عروة عن عائشة
نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
حضرت زہری (رح) حضرت عروہ (رح) سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ایک دن میں اور حفصہ ؓ دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چناچہ ہم نے کھالیا اب ہمارے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور حفاظ حدیث کی ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو زہری سے اور زہری نے حضرت عائشہ ؓ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اس میں عروہ کا واسطہ مذکور نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ نیز اس روایت کو امام ابوداؤد نے زمیل (رح) سے نقل کیا ہے جو حضرت عروہ کے آزاد کردہ غلام تھے زمیل نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے۔

تشریح
چونکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا نفل روزہ توڑ دے تو اس کی قضا ضروری ہے اس لئے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم کہ اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو بطور وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن شوافع کے ہاں چونکہ نفل روزہ کی قضا واجب نہیں ہے اس لئے ان کے نزدیک یہ حکم بطور استحباب ہے۔ روایت کے آخری جزء زہری نے حضرت عائشہ ؓ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے لفظ ارسال اسناد سے سقوط راوی کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے انقطاع واسطہ یعنی پہلی روایت کے سلسلہ اسناد میں زہری (رح) اور عائشہ ؓ کے درمیان عروہ کا جو واسطہ تھا وہ اس روایت میں نہیں ہے اگرچہ یہ اصطلاح اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر مشہور یہی ہے کہ مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جسے تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر نقل کرے۔
Top