مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2084
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : دخل علي النبي صلى الله عليه و سلم ذات يوم فقال : هل عندكم شيء ؟ فقلنا : لا قال : فإني إذا صائم . ثم أتانا يوما آخر فقلنا : يا رسول الله أهدي لنا حيس فقال : أرينيه فلقد أصبحت صائما فأكل . رواه مسلم
نفل روزہ کی نیت دن میں کی جاسکت ہے
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، پھر اس کے بعد ایک دن اور آپ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے لئے حیس ہدیہ میں آیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ لاؤ مجھے وہ دکھاؤ میں نے صبح روزہ رکھ لیا تھا پھر آپ ﷺ نے وہ حیس کھالیا۔ (مسلم)

تشریح
میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ میں نے روزہ کی نیت کرلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ نفل روزہ کی نیت دن میں کرنی چاہئے چناچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ روزہ کسی بھی قسم کا ہو خواہ فرض ہو یا نفل اس کی نیت رات ہی سے کرنی واجب ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہے۔ حیس ایک کھانے کا نام ہے جو مالیدہ کی طرح ہوتا تھا اور کھجور، گھی اور قروت سے بنایا جاتا تھا بہرکیف حدیث کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ نے روزہ کی حالت میں حضرت عائشہ ؓ سے حیس لے کر تناول فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بغیر عذر کے بھی نفل روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ نفل روزہ شروع کردینے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہے اس کو توڑ ڈالنا جائز نہیں ہے ہاں کسی عذر کی بناء پر مثلا مہمانداری وغیرہ کے پیش نظر نفل روزہ توڑا جاسکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی قضا واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ حدیث اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے بلا عذر روزہ نہیں توڑا تھا۔ بلکہ آپ ﷺ کو کوئی ایسا عذر لاحق تھا جس کی بناء پر آپ ﷺ نے روزہ توڑ ڈالا جس کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا، اس مسئلہ میں حنفیہ کی دلیل آگے آرہی ہے۔
Top