مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2050
وعن ابن عباس قال : حين صام رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا : يا رسول الله إنه يوم يعظمه اليهود والنصارى . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع . رواه مسلم
یوم عاشوراء کے روزے کا مسئلہ
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاریٰ کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاریٰ کی موافقت کیسے کریں آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا۔ (مسلم)

تشریح
عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ اس کی وضاحت اسی باب کی تیسری فصل کی پہلی حدیث میں آئے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری بہ نسبت ہم موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ قریب ہیں چناچہ اس کے بعد آپ ﷺ نے یوم عاشورہ کو روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی دنوں کا ہے گویا اس وقت آپ ﷺ نے صحابہ کو عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو جو حکم دیا وہ بطور وجوب کے تھا۔ یہاں جو صورت ذکر کی گئی ہے وہ آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی کے آخری سال میں پیش آئی ہے اس موقت پر آپ ﷺ نے جو حکم دیا وہ بطور استحباب کے ہے کیونکہ اس بارے میں وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا اور اس کی جگہ استحباب نے لے لی اس موقع پر صحابہ نے مذکورہ بالا عرضداشت پیش کی جس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال اس دنیا میں رہا تو نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ اب اس میں احتمال ہے کہ یا تو آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ محرم کی دسویں تاریخ ( عاشورہء) کی بجائے صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ یا یہ کہ دسویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور پہلا احتمال ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اس ترمیم سے مقصد یہ تھا کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، آپ ﷺ آئندہ سال تک اس دنیا میں تشریف فرما نہیں رہے بلکہ اسی سال ربیع الاول کے مہینہ میں واصل بحق ہوگئے اس طرح اگر آپ ﷺ نے نویں کا روزہ نہیں رکھا مگر علماء لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اس عزم و ارادہ کی بنا پر امت کے لئے محرم کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنا سنت قرار پا گیا ہے۔ محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔
Top