مشکوٰۃ المصابیح - روزہ کو پاک کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2005
وہ چیزیں جن سے صرف قضالازم ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں ہوتا
اس بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر کسی ایسی چیز سے روزہ فاسد ہو جو غذا کی قسم سے نہ ہو یا اگر ہو تو کسی شرع عذر کی بنا پر اسے پیٹ یا دماغ میں پہنچایا گیا ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس سے شرمگاہ کی شہوت پوری طرح ختم نہ ہوتی ہو جیسے جلق وغیرہ تو ایسی چیزوں سے کفارہ لازم نہیں ہوتا بلکہ صرف قضا ضروری ہے لہٰذا اگر روزہ دار رمضان میں کچے چاول اور خشک یا گوندھا ہوا آٹا کھائے تو روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا واجب ہوتی ہے اور اگر کوئی جو یا گیہوں کا آٹا پانی میں گوندھ کر اور اس میں شکر ملا کر کھائے گا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہوجائے گا۔ اگر کوئی شخص یکبارگی بہت زیادہ نمک کھائے یا گل ارمنی کے علاوہ کوئی ایسی مٹی کھائے جس کو عادۃً کھایا نہیں جاتا یا گٹھلی یا روئی یا اپنا تھوک نگل لے جو ریشم و کپڑے وغیرہ کے رنگ مثلا زرد، سبزہ وغیرہ سے متغیر تھا اور اسے اپنا روزہ بھی یاد تھا یا کاغذ یا اس کے مانند ایسی کوئی چیز کھائی جو عادۃً نہیں کھائی جاتی یا کچی بہی یا اس کے مانند ایسا کوئی پھل کھائے جو پکنے سے پہلے عادۃً کھائے نہیں جاتے اور انہیں پکا کر یا نمک ملا کر نہیں کھایا، یا ایسا تازہ اخروٹ کھایا جس میں مغز نہ ہو یا کنکر، لوہا، تانبا، سونا چاندی اور یا پتھر خواہ وہ زمرد وغیرہ ہی ہو نگل گیا تو ان صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہوگا، صرف قضا لازم ہوگی اسی طرح اگر کسی نے حقنہ کرایا، یا ناک میں دوا ڈالی یا منہ میں دوا رکھی اور اس میں سے کچھ حلق میں اتر گئی اور یا کانوں میں تیل ڈالا تو ان صورتوں میں بھی صرف قضا لازم آئے گی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ کان میں قصدا پانی ڈالنے کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ہدایہ ملتقیٰ، درمختار، شرح وقایہ اور اکثر متون میں مذکور ہے کہ اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا مگر قاضی خان اور فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اس بارے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا لازم آتی ہے۔ کسی شخص نے پیٹ کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ پیٹ میں پہنچ گئی یا سر کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ دماغ میں پہنچ گئی یا حلق میں بارش کا پانی یا برف چلا گیا اور اسے قصدا نہیں نگلا بلکہ از خود حلق سے نیچے اتر گیا یا چوک میں روزہ جاتا رہا مثلا کلی کرتے ہوئے پانی حلق کے نیچے اتر گیا یا ناک میں پانی دیتے ہوئے دماغ کو چڑھ گیا، یا کسی نے زبردستی روزہ تڑوا دیا خواہ جماع ہی کے سبب سے یعنی خاوند نے زبردستی بیوی سے جماع کیا یا بیوی نے زبردستی خاوند سے جماع کرایا تو ان سب صورتوں میں بھی کفارہ لازم نہیں ہوگا بلکہ صرف قضا لازم ہوگی ہاں جماع کے سلسلہ میں زبردستی کرنے والے پر کفارہ بھی لازم ہوگا اور جس کے ساتھ زبردستی کی گئی اس پر صرف قضا واجب ہوگی۔ اگر کوئی عورت جو لونڈی ہو (خواہ حرم یا منکوحہ) خدمت و کام کاج کی وجہ سے بیمار ہوجانے کے خوف سے روزہ توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی، اسی طرح اگر لونڈی اس صورت میں روزہ توڑ ڈالے جب کہ کام کاج مثلا کھانا پکانا یا کپڑا وغیرہ دھونے کی وجہ سے ضعف و توانائی لاحق ہوگئی تو اس صورت میں بھی قضا واجب ہوگی اس ضمن میں یہ مسئلہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اگر کسی لونڈی کو اس کا آقا کسی ایسے کام کے لئے کہے جو ادائے فرض سے مانع ہو تو اس کا کہنا ماننے سے انکار کردینا چاہئے کسی شخص نے روزہ دار کے منہ میں سونے کی حالت میں پانی ڈال دیا یا خود روزہ دار نے سونے کی حالت میں پانی پی لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس پر قضا واجب ہوگی اس مسئلہ کو بھول کر کھا پی لینے کی صورت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ اگر سونے یا وہ شخص کہ جس کی عقل جاتی رہی ہو کوئی جانور ذبح کرے تو اس کا مذبوحہ کھانا حلال نہیں ہے اس کے برخلاف اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز ہے اسی طرح یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ بھول کی حالت میں کھانے پینے والے کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، ہاں کوئی شخص سونے کی حالت میں کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ایک شخص نے بھول کر روزے میں کچھ کھالیا پھر اس کے بعد قصدا کھایا، یا بھول کر جماع کرلیا اور اس کے بعد پھر قصدا جماع کیا یا دن میں روزہ کی نیت کی پھر قصدا کھا پی لیا یا جماع کیا، یا رات ہی سے روزہ کی نیت کی پھر صبح ہو کر سفر کیا اور پھر اس کے بعد اقامت کی نیت کرلی اور کچھ کھا پی لیا اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا، یا رات سے روزہ کی نیت کی، صبح کو مقیم تھا، پھر سفر کیا اور مسافر ہوگیا اور حالت سفر میں قصدا کھایا یا جماع کیا، اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا تو ان تمام صورتوں میں صرف قضا لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا مسئلہ مذکورہ میں حالت سفر میں کھانے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر شروع کردینے کے بعد پھر اپنی کوئی بھولی ہوئی چیز لینے کے لئے واپس اپنے گھر میں آئے اور اپنے مکان میں یا اپنے شہر و اپنی آبادی سے جدا ہونے سے پہلے قصدا کھالے تو اس صورت میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہونگے۔ اگر کوئی شخص تمام دن کھانے پینے اور دوسری ممنوعات روزہ سے رکا رہا مگر نہ تو اس نے روزہ کی نیت کی اور نہ افطار کیا، یا کسی شخص نے سحری کھائی یا جماع کیا اس حالت میں کہ طلوع فجر کے بارے میں اسے شک تھا حالانکہ اس وقت فجر طلوع ہوچکی تھی، یا کسی شخص نے غروب آفتاب کے ظن غالب کے ساتھ افطار کیا حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو ان صورتوں میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا اور اگر غروب آفتاب میں شک ہونے کی صورت میں افطار کیا اور حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہونے کے بارے میں دو قول ہیں جس میں سے فقیہ ابوجعفر (رح) کا مختار قول یہ ہے کہ غروب آفتاب کے شک کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا اس طرح اگر کسی شخص کا ظن غالب یہ ہو کہ آفتاب غروب نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ روزہ افطار کرے اور حقیقت میں بھی سورج غروب نہ ہوا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ کسی شخص کو جانور کے ساتھ یا میت کے ساتھ فعل بد کرنے کے سبب انزال ہوگیا یا کسی کی ران یا ناف یا ہاتھ کی رگڑ سے منی گرائی یا کسی کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کی وجہ سے انزال ہوگیا یا غیر ادائے رمضان کا روزہ توڑا تو ان سب صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہوگا بلکہ قضا لازم ہوگی، اسی طرح اگر کسی نے روزہ دار عورت کے ساتھ اس کے سونے کی حالت میں جماع کیا تو اس عورت کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر صرف قضا لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا، یا کسی عورت نے رات سے روزہ کی نیت کی اور جب دن ہوا تو دیوانی ہوگئی اور اس کی دیوانگی کی حالت میں کسی نے اس سے جماع کیا تو اس صورت میں اس عورت پر اس روزہ کی قضا لازم ہوگی۔ اگر کسی عورت نے اپنی شرمگاہ میں پانی یا دوائی ٹپکائی یا کسی نے تیل یا پانی سے بھیگی ہوئی انگلی اپنے مقعد میں داخل کی یا کسی نے اس طرح استنجاء کیا کہ پانی حقنہ کی جگہ تک پہنچ گیا اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے یا استنجاء کرنے میں زیادتی و مبالغہ کی وجہ سے پانی فرج داخل تک پہنچ گیا تو قضا واجب ہوگی۔ کسی شخص کو بواسیر ہو اور اس کے م سے باہر نکل آئیں اور وہ ان کو دھوئے تو اگر ان مسوں کو اوپر اٹھنے سے پہلے خشک کرلیا جائے گا تو ان کے اوپر چڑھ جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ اس طرح پانی بدن کے ایک ظاہر حصہ پر پہنچا تھا اور پھر بدن کے اندرونی حصہ میں پہنچنے سے پہلے زائل ہوگیا ہاں اگر م سے اوپر چڑھنے سے پہلے خشک نہ ہوں گے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اگر کوئی عورت تیل یا پانی سے ترکی ہوئی انگلی اپنی شرم گاہ کے اندرونی حصے میں داخل کرے گی یا کوئی شخص روئی یا کپڑا یا پتھر اپنی دبر میں داخل کرے گا یا کوئی عورت ان چیزوں کو اپنی شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں داخل کرے گی اور یہ چیزیں اندر غائب ہوجائیں گی تو روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم ہوگی ہاں اگر لکڑی وغیرہ کا ایک سرا ہاتھ میں رہے یا یہ چیزیں عورت کی شرمگاہ کے بیرونی حصہ ہی تک پہنچی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اسی طرح اگر کسی شخص نے ڈورا نگل لیا بایں طور کہ اس کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں ہو اور پھر وہ اس ڈورے کو باہر نکالے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اور اگر اس کا ایک سرا ہاتھ میں نہ ہو بلکہ سب نگل جائے تو یہ روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔ جو شخص قصدا اپنے فعل سے کسی چیز کا دھواں اپنے دماغ یا اپنے پیٹ میں داخل کرے گا تو بعید نہیں کہ کفارہ بھی لازم ہوجائے کیونکہ ان کا دھواں نہ صرف یہ کہ قابل انتفاع ہے بلکہ اکثر دواءً بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح سگریٹ بیڑی اور حقہ کا دھواں داخل کرنے کی صورت میں بھی کفارہ لازم ہوسکتا ہے۔ اگر کسی شخص نے قصدا قے کی خواہ وہ منہ بھر کر نہ آئی ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم آئے گی اس بارے میں روایت یہی ہے لیکن حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ قصدا قے کرنے کی صورت میں روزہ اسی وقت فاسد ہوگا اور قضا لازم ہوگی جب کہ قے منہ بھر کر آئی ہو اگر منہ بھر کر نہ آئی ہوگی تو نہ روزہ فاسد ہوگا اور نہ قضاء لازم ہوگی۔ چناچہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہی ہے۔ کسی شخص کو از خود منہ بھر کر قے آئی اور وہ اسے نگل گیا، یا کسی شخص نے دانتوں میں اٹکی ہوئی کوئی چیز جو ایک چنے کے بقدر یا اس سے زیادہ تھی کھالی یا کسی شخص نے رات سے نیت نہیں کی، دن میں بھی اس نے نیت نہیں کی تھی کہ بھول کر کچھ کھالیا پی لیا اور اس کے بعد اس نے روزہ کی نیت کی تو ان سب صورتوں میں روزہ نہیں ہوگا اور قضا لازم ہوگی، یا اسی طرح کوئی روزہ دار بےہوش ہوجائے اور خواہ وہ مہینہ بھر تک بےہوش رہے تو اس پر قضا لازم ہوگی ہاں اس دن کے روزہ کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ جس دن میں یا جس کی رات سے بیہوشی شروع ہوئی ہو کیونکہ مسلمان کے بارے میں نیک گمان ہی کرنا چاہئے اس لئے ہوسکتا ہے اس نے رات میں نیت کرلی ہو اور اس طرح اس کا روزہ پورا ہوجائے گا اب اس کے بعد جتنے دنوں بیہوش رہے گا ان کی قضا کرے گا۔ بےہوشی شروع ہونے والے دن کے بارے میں بھی مگر یہ یقین ہو کہ نیت کی تھی تو اس دن کے روزہ کی قضا بھی ضروری ہوگی۔ بیہوشی کے دنوں کے روزوں کی قضا اس لئے ضروری ہوگی کہ اگرچہ اس نے کچھ کھایا پیا نہیں مگر چونکہ روزہ کی نیت نہیں پائی گئی اس لئے بیہوشی کی حالت میں اس کا بغیر نیت کچھ نہ کھانا پینا اور تمام چیزوں سے رکے رہنا کافی و کار آمد نہیں ہوگا اگر کسی شخص پر رمضان کے پورے مہینہ میں دیوانگی طاری رہی تو اس پر قضا واجب نہیں ہوگی ہاں مگر پورے مہینہ دیوانگی طاری نہ رہی تو پھر قضا ضروری ہوگی اور اگر کسی شخص پر پورے مہینے بایں طور دیوانگی طاری رہی کہ دن میں یا رات میں نیت کا وقت ختم ہوجانے کے بعد اچھا ہوجاتا تو جب بھی قضا ضروری نہیں ہوگی بلکہ یہ پورے مہینہ دیوانگی طاری رہنے کے حکم میں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے رمضان میں روزے کی نیت نہیں کی اور پھر اس نے دن میں کھایا پیا تو امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوگا صرف قضا لازم ہوگی مگر صاحبین کا قول یہ ہے کہ کفارہ واجب ہوگا۔ کسی شخص کا روزہ ٹوٹ گیا خواہ وہ کسی عذر ہی کی بناء پر ٹوٹا ہو پھر وہ عذر بھی ختم ہوگیا ہو تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دن کے بقیہ حصہ میں رمضان کے احترام کے طور پر کھانے پینے میں ممنوع دوسری چیزوں سے اجتناب کرے، اسی طرح اس عورت کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں روزہ میں ممنوع چیزوں سے اجتناب ضروری ہے جو حیض یا نفاس میں مبتلا تھی اور طلوع فجر کے بعد پاک ہوگئی نیز مسافر جو دن میں کسی وقت مقیم ہوگیا ہو یا بیمار جو اچھا ہوگیا ہو دیوانہ شخص جس کی دیوانگی جاتی رہی ہو، لڑکا جو بالغ ہو اور کافر جو اسلام قبول کرلے ان سب لوگوں کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں کھانے پینے اور دوسری ممنوع چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان سب پر اس دن کے روزہ کی قضا لازم ہوگی البتہ موخر الذکر دونوں پر قضا لازم نہیں ہوگی۔ جو عورت حیض و نفاس میں مبتلا ہو یا جو شخص بیماری کی حالت میں ہو، یا جو شخص حالت سفر میں ہو ان کے لئے کھانے پینے سے اجتناب ضروری نہیں ہے تاہم ان کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ عام نگاہوں سے بچ کر پوشیدہ طور پر کھائیں پئیں۔
Top