مشکوٰۃ المصابیح - رویت ہلال کا بیان - حدیث نمبر 1988
عن حفصة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلا صيام له . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي والدارمي وقال أبو داود : وقفه على حفصة معمر والزبيدي وابن عيينه ويونس الأيلي كلهم عن الزهري
روزہ کی نیت کب کی جائے
حضرت حفصہ ؓ راویہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص روزے کی نیت فجر سے پہلے نہ کرے تو اس کا روزہ کامل نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور امام ابوداؤد فرماتے ہیں معمر، زبیدی ابن عیینہ اور یونس ایلی ان تمام نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اور حضرت حفصہ ؓ پر موقوف کیا ہے یعنی اس حدیث کو حضرت حفصہ ؓ عناہ کا قول کہا ہے۔

تشریح
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ کی نیت رات ہی سے نہ کی جائے تو روزہ درست نہیں ہوتا خواہ روزہ فرض ہو یا واجب ہو یا نفل۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ حضرت امام مالک (رح) کا تو یہی مسلک ہے کہ روزہ میں نیت رات ہی سے کرنی شرط ہے خواہ روزہ کسی نوعیت کا ہو، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن نفل کے معاملے میں ان دونوں کے یہاں اتنا فرق ہے کہ اگر روزہ نفل ہو تو امام احمد کے ہاں زوال سے پہلے بھی نیت کی جاسکتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک آفتاب غروب ہونے سے پہلے تک بھی نیت کر لینی جائز ہے۔ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رمضان نفل اور نذر معین کے روزہ میں آدھے دن شرعی یعنی زوال آفتاب سے پہلے پہلے نیت کر لینی جائز ہے لیکن قضاء کفارہ اور نذر مطلق میں حنفیہ کے یہاں بھی رات ہی سے نیت کرنی شرط ہے ان تمام حضرات کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
Top