مشکوٰۃ المصابیح - رویت ہلال کا بیان - حدیث نمبر 1979
وعن ابن عباس قال : جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : إني رأيت الهلال يعني هلال رمضان فقال : أتشهد أن لا إله إلا الله ؟ قال : نعم قال : أتشهد أن محمدا رسول الله ؟ قال : نعم . قال : يا بلال أذن في الناس أن يصوموا غدا . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
شہادت ہلال
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم کیا اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا کہ بلال لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مستور الحال ہو یعنی اس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو تو رمضان کے چاند کے بارے میں اس کی شہادت معتبر اور قابل قبول ہوگی نیز یہ کہ رمضان کے چاند کی گواہی دیتے ہوئے لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہلال رمضان شریف شہادت میں صرف ایک شخص کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے چناچہ حنفی مسلک میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ہلال رمضان کی رویت ایک عادل یا مستور الحال شخص کی شہادت سے ثابت ہوجاتی ہے نیز یہ کہ ہلال رمضان کی شہادت میں لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے مگر ایک شخص کی گواہی اسی صورت میں معتبر ہوگی جب کہ مطلع ابرو غبار آلود ہو اگر عید کی چاند رات کو ابرو غبار ہو تو پھر دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل و آزاد عورتوں کی شہادت ہی معتبر ہوگی نیز یہ کہ اس موقع پر لفظ شہادت کا استعمال بھی شرط ہوگا پھر موقع و محل کے پیش نظر شہادت کی صورت بھی بدلتی رہتی ہے۔ مطلع صاف ہو تو جماعت کثیرہ کی شہادت ضروری ہوگی۔
Top