مشکوٰۃ المصابیح - رویت ہلال کا بیان - حدیث نمبر 1978
وعن عمار بن ياسر رضي الله عنهما قال : من صام اليوم الذي يشك فيه فقد عصى أبا القاسم صلى الله عليه و سلم . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
یوم الشک کے روزہ کا مسئلہ
حضرت عمار بن یاسر ؓ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی اس کی صبح کو جو دن ہوگا یعنی تیس تاریخ کو یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہوگیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے ہاں اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے۔ اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے، چناچہ اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہوجائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا افضل ہوگا۔ اسی طرح یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لئے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کرلیں۔ حضرت ابن عمر ؓ اور دوسرے صحابہ کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہوجاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر ابرو غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے ہاں اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے اور علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو شک کے دن کے روزے کی نیت کرنا جانتے ہوں اور جو لوگ اس دن کے روزے کی نیت کرنا نہ جانتے ہوں انہیں عوام کہا جاتا ہے چناچہ اس دن روزہ کی نیت یہ ہے کہ جو شخص اس دن کہ جس میں رمضان کے بارے میں شک واقع ہو رہا ہے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ یہ نیت کرے کہ میں آج کے دن نفل روزے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اگر آج رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان کا بھی ہے اس طرح نیت کرنی مکروہ ہے۔ کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں محسوب ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب میں محسوب ہو۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح کرلیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہوگیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں محسوب ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہوگا تو میرا بھی روزہ ہوگا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہوگا تو میرا روزہ بھی نہیں ہوگا۔ تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہوگا اور نہ رمضان کا ہوگا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہوجائے۔
Top